سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جانب سے نیب ترامیم کے حوالے سے آئینی درخواست کو درست قرا ر دیتے ہوئے قراردیاہے کہ نیب کے حوالے سے سابقہ حکومت نے جوبھی ترامیم کی ہیں وہ غلط ہیںاس فیصلے کے آنے سے ایک نیاپنڈورباکس کھل گیاہے کیونکہ جن جن افراد کے کیسزمعاف ہوئے تھے یاجنہوں نے پلی بارگین کی تھی اور دوبارہ قابل سماعت ٹھہرے اور اب یہ دوبارہ عدالتوں میں زیرسماعت ہوںگے۔فیصلہ غریب عوام کے حق میں تو خوش آئند ہے مگرشاید ان لوگوں کو یہ فیصلہ پسندنہ آئے کہ جو اس سے متاثرہوئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز اس کیس کا فیصلہ سنا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے پر اختلاف کیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی جاتی ہے، 500ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے تاہم سروس آف پاکستان کیخلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی جاتی ہیں ۔ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کردئیے اور کہا کہ تمام ختم انکوائریز، کیسز بحال کیے جاتے ہیں، تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جائیں۔سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی ہیں اور عدالت نے نیب کو 7دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دئیے گئے احکامات کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں۔ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔یاد رہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں جس پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست دائر کی تھی، سپریم کورٹ نے درخواست پر 53 سماعتیں کیں۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے 5 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اس حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس اہم کیس کا فیصلہ کر کے جاو¿ں گا۔عدالت عظمیٰ کے تین رکن بنچ میں چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25اور 26میں ترامیم کی تھیں، اس کے علاوہ نیب قانون کے سیکشن 14، 15، 21اور 23میں بھی ترامیم کی گئی تھیں۔دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کا تفصیلی فیصلہ 2:1کے تناسب سے جاری کر دیا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کو بھی حصہ بنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے کے آغاز میں سور انفال کی آیت کا تذکرہ کیا گیا ہے، اکثریتی تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے نیب قانون بنا کر اس کا اطلاق یکم جنوری 1985 سے کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 میں نیب قانون میں ترمیم سے احتساب عدالتوں کے ریفرنسز متاثر ہوئے، 2022 میں احتساب عدالتوں سے نیب ترامیم کے بعد 386 ریفرنسز واپس ہوئے، 2023 میں ترامیم سے 212 نیب ریفرنسز واپس ہوئے، نیب ترامیم سے اب تک 598 ریفرنسز واپس کیے گئے۔فیصلے کے مطابق نیب ترامیم سے جو ریفرنسز واپس ہوئے ان میں 35ریفرنسز سیاست دانوں سے متعلق ہیں، ترامیم کے بعد جو نیب ریفرنسز واپس ہوئے ان میں 150ارب روپے کی عوامی رقم کا معاملہ ہے، 50کروڑ کی حد مقرر کرنے کے سبب 2022 میں 327نیب ریفرنسز احتساب عدالتوں سے واپس بھیجے گئے۔سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں نیب ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 598 ریفرنسز میں سے صرف 54 ریفرنسز دیگر عدالتوں میں بھیجے گئے، 17ریفرنسز کسٹم کورٹ جبکہ 4کیسز بینکنگ کورٹس کو منتقل ہوئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، وقت کی کمی کے باعث اپنے اختلافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کروں گا، بنیادی سوال نیب ترامیم کا نہیں بلکہ 24کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میری رائے میں اکثریتی فیصلہ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ریاست کے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے، اکثریتی فیصلہ آئین میں دیے گئے اختیارات کی تقسیم کی مماثلث کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا جو جمہوری نظام کی بنیاد ہے، کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا۔انہوں نے لکھا کہ بنیادی سوال پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی اہمیت اور ریاست کے اختیارات کی تقسیم کا ہے، بنیادی سوال بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر غیر منتخب ججز کا پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون پر فیصلہ سازی کی حدود سے متعلق ہے، اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سمجھنے میں ناکام رہا ، جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار کبھی ختم نہیں ہوتا، اگر پارلیمنٹ نیب قانون بنا سکتی ہے تو اس کو واپس بھی لے سکتی ہے اور ترمیم بھی کر سکتی ہے، میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے درخواست مسترد کرتا ہوں۔
عوام پر ایک بارپھرپٹرول بم گرادیاگیا
غربت کے ستائے عوام پر ایک اور مہنگائی بم گرا دیا گیا،آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسی عوام کےلئے آئے روز مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہاہے، حکمران ہوش کے ناخن لیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے جس کااثر براہ راست عام آدمی اورغریب پرپڑتا ہے۔نگراں حکومت نے پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے سے زائد اضافہ کردیا۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق آئندہ پندرہ روز کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کا اطلاق رات بارہ بجے سے 30 ستمبر تک ہوگیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے دو پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.34روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔حالیہ اضافے کے بعد فی لیٹر پٹرول کی قیمت 331روپے 38پیسے جبکہ فی لیٹر ڈیزل کی قیمت 329 روپے 18پیسے تک پہنچ گئی۔دوسری جانب وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق ملک میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر 29ہزار 518روپے سے 44ہزار 175 روپے ماہانہ آمدن رکھنے والا طبقہ متاثر ہوا اور اس طبقے کےلئے مہنگائی کی شرح 29.27فیصد رہی۔ ایک ہفتے میں ٹماٹر 4.29فیصد، لہسن 4.21، روٹی 3.92 ، پیاز 3.60، دال مسور 3.19، نمک پاوڈر2.77، دال مونگ 1.66 اور دال ماش 1.25 فیصد مہنگی ہوئی ۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے سالانہ بنیادوں پر 17ہزار 732روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں26.53فیصد، 17ہزار 733روپے سے 22ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں23.84فیصد، 22ہزار 889روپے سے 29ہزار 517روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں 228.03فیصد رہی۔
کوئٹہ میں تین دہشتگردجہنم واصل
گزشتہ روز کوئٹہ کے علاقے ولی تنگ میں دہشتگردوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا گیا جہاں دہشتگردوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 3دہشت گرد ہلاک ہوگئے ۔ فائرنگ کے دوران پاک فوج کے صوبیدار قیصر رحیم نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا جبکہ ایک سپاہی شدید زخمی ہوگیا۔ سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے پُرعزم ہیں، بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
اداریہ
کالم
نیب ترامیم کالعدم قرار
- by web desk
- ستمبر 17, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 645 Views
- 1 سال ago