وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر قوم سے خطاب میں وعدہ کیا ہے کہ ہم نے اہداف پورے کر لئے تو یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا ملک پر بوجھ تمام اداروں کا خاتمہ کردیا جائے گا ڈیڑھ سے دو ماہ میں مثبت نتائج آئیں گے عوامیت پیسے پر عیاشی نہیں ہوگی پانچ سال میں بیروزگاری غربت کی کمر توڑ دیں گے ہمسایہ ممالک سے آگے نکلیں گے دوست ممالک کی سرمایہ سے مکمل فائدہ حاصل کرنے کے لئے نظام بنایا لیا ہے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا آج پاکستان معاشی مشکلات سے نکل کر خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے کسی بھی حکومت کی اٹھان اور سمت کا تعین کرنے کے لئے پہلے سو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں وزیر اعظم شہباز شریف نے حکومت کے سو دن پورے ہونے پر قوم سے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ حالات کی درست نشاندہی اور معیشت بحالی کی نوید قوم کو سنا رہے ہیں شہباز شریف کی قیادت میں سابق پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے پندرہ ماہ کے دوران جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اکستان کا ہر شہری ہوش ربا مہنگائی جان لیوا بے روزگاری بجلی و گیس کے شدید بحران اور اور ہولناک بے یقینی کے تجربے سے گزرنے کے باعث اس سے بخوبی واقف ہے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے سوا کوئی دوسرا راستہ اور ملک کو تشویشناک معاشی کیفیت سے نکالنے اور بعض مسائل پر قابو پانے کے لیے غیر مقبول فیصلوں کے سوا چارہ نہیں تھا آئی ایم ایف کے مطالبات پر سابق شہباز شریف حکومت نے خاصی حیل و حجت سے کام لیا کہ شاید اس کے بغیر ہی کوئی صورت نکل آئے مگر آخر کار ان کی شرائط تسلیم کر لی گئیں بلا شبہ کروڑوں پاکستانی اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ وقت آئے گا کہ پاکستان قرضوں سے جان چڑھا کر اپنے پاں پر کھڑا ہوگا ہمارے حکمران کشکول اٹھا کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے مانگتے پھرتے ہیں تو محب وطن عوام پر کیا گزرتی ہے اس درد انگیز کیفیت کو بیان کرنے سے قلم قاصر ہے وزیر اعظم شہباز شریف کی قرضوں سے جان چھڑانے کی خواہش خوش آئند مگر کشکول ایسی بلا ہے جو بار بار اپنے ٹکڑوں کو جوڑ کر اصلی حالت میں آجاتی ہے عوام نے ہمیشہ اس امید پر مختلف سیاسی جماعتوں کے بیلٹ باکس بھرے ہیں یہ کم بخت کشکول ٹوٹے اور اس قرض سے چھٹکارا ملے لیکن جب حکومت ملتی ہے تو سب وعدے بھول جاتے ہیں اور کشکول مزید بڑا ہوتا چلا جاتا ہے ہمارے حکمرانوں نے قرضے لینے کو حکومت چلانے کا نسخہ کیمیا سمجھ رکھا ہے ان حالات میں کشکول توڑنے اور قرضوں کی جان چھڑانے کی کی خواہش محض خواہش کے سوا کچھ نہیں کشکول توڑنے اور قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے پاکستان کے اشرافیہ طبقے کو حاصل مراعات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو ملک میں بر سر اقتدار آنے والے کسی بھی حکمران کی کبھی ترجیح نہیں رہی کیونکہ ان مراعات پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ان کے پر جلتے ہیں اس لئے وہ اپنے اللوں تللوں کو پورا کرنے کے لئے تواتر کے ساتھ غریب عوام کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی اس بری الذمہ نہیں معیشت کی بحالی کے لئے مشکل فیصلوں کے نام پر جو بھی اقدامات کئے جارہے ہیں ان کا سب سے بڑا اثر پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے پر پڑ رہا ہے اور ان کیلئے جسم وجان کا رشتہ بحال رکھنا مشکل تر ہوگیا ہے پاکستانی قوم کے بہتر مستقبل کے لئے حکمران تمام غیر ضروری اخراجات سرکاری وسائل کا بے دردی سے استعمال بند کردیں پر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے سرکاری محکموں میں نت نئی گاڑیاں خریدنا اور بیورو کریسی کا اختیارات سے تجاوز ہمارے ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اس صورت حال میں کشکول کو توڑنا اور قرضوں سے جان چھڑانا ممکن نہیں پاکستان میں اشرافیہ ہی سب کچھ کنٹرول کرتی ہے اور ہم بار بار دیکھتے ہیں کہ ایمنسٹی سکیم ہو یا پھر کوئی اور ریاست کی مدد سے فائدہ اس میں اشرافیہ کے مفادات کو ہی مد نظر رکھا جاتا ہے اور اس کا بھاری بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے سیاست سے لے کر اقتدار اور طاقت کے ہر ایوان تک ہماری اشرافیہ کو روکنے کا مشکل فیصلہ کون کرے گا ؟ ہمارے قومی مزاج میں ماضی سے سیکھنے کے رویے کا فقدان ہے ہم تاریخ کو قصہ کیانی سے بڑھ کر دیکھنے کے عادی نہیں فی زمانہ یہ خوفناک رویہ ہے جس سے بچنا ہوگا فیصلے چاہے معاشی ہوں یا سیاسی ماضی سے سیکھنے کی عادت ڈالنا ہوگی ملک میں معیشت کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے کسی بھی شہری سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ جب ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ہوگا تب ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار مطمئن ہوکر اپنا کاروبار شروع کرے گا کار خانے لگیں گے روز گار بڑھے گا غربت دور ہوگی مزدور خوشحال ہوگا سیاحت بڑھے گی ملک مستحکم اور مضبوط ہوگا اور اپنے قرض اتارنے کے قابل ہو جائے گا بلا شبہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہے دنیا ہمیشہ ایسے ممالک سے تجارتی معاہدے کرنا پسند کرتی ہےجہاں سیاسی استحکام ہو کیونکہ سب کو اپنے منصوبوں کی تکمیل اور کامیابی عزیز ہوتی ہے حکومت ملک میں نئی سرمایہ کاری لانے کے لئے قابل عمل پالیسیاں ترتیب دے ملک کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن پیدا کرکے ہی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے شارٹ ٹرم کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ناگزیر ہے پاکستان کی معیشت کنزیومر معیشت کا ماڈل بنی ہوئی ہے کپڑوں کے بٹن سے لے کر جوتوں اور ملبوسات تک درآمد کئے جاتے ہیں الیکٹرونکس کی تمام آئٹمز’ تعمیراتی میٹریل بھی بڑی تعداد میں درآمد ہوتا ہے آٹو موبائل کا شعبہ بھی زیادہ تر درآمدات پر انحصار کرتا ہے فوڈ آئٹمز کی درآمد بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے’ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بننے کے بجائے اپنے مینو فیکچرنگ سیکٹر کو مضبوط کریں اور ترقی دیں توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ تھر کے کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں ملک سے بے روز گاری مہنگائی کرپشن اور دہشت گردی ختم کرنے کے لئے متحدہ کوششیں ناگزیر ہیں توانائی اور آبپاشی کے بڑھتے بحرانوں پر قابو پانے کے لئے اتفاق رائے سے نئے ڈیموں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے گی زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے پر پابندی عائد اور بنجر بے آباد زمینوں کو زیر کاشت لانے کے لئے قابل عمل اقدامات کئے جائیں سابق حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور عدم توجہ کی وجہ سے زراعت اور کاشتکار دونوں ہی مشکلات کا شکار ہیں ہماری زرعی شعبے کی مجموعی پیداوار اور فی ایکڑ پیدوار مسلسل کم ہورہی ہے جس کے باعث ہماری زرعی درآمدات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے حکومت کو زرعی پیدوار کو بڑھانے کے لئے جدید علوم اور ٹیکنا لوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسی اور ٹیکس نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے موجودہ ٹیکس نظام میں موجودہ قوانین امرا اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچاتے ہیں جبکہ ملک میں بلیک اکا نومی کے پھیلا کا ذمہ دار بھی طاقتور طبقہ اور امرا ہیں وقت آگیا ہے کہ حکومت غریب کی سانسیں بند کرنے کی پالیسیوں کو اختیار کرنے کے بجائے امرا اور طاقتور طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لائے اور انہیں دی جانے والی مراعات اور سہولیات کو ختم کرکے یہ رقم غریب عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جائے۔