اداریہ کالم

وزیراعظم کے معاشی بحران کے خاتمے کے لئے اقدامات

وزیراعظم پاکستان ملک کومعاشی بحران سے نکالنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ جلد ازجلد معاشی بحران ختم ہو اورملک اپنے قدموں پرکھڑا ہوسکے۔اس مقصد کے لئے ملک کے اندرموجودمعدنیات کونکالنے اورانہیں عالمی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے حوالے سے بھی پُرامید ہیں ان کی خواہش ہے کہ پاکستان ملک کے اندر موجودمعدنی دولت کاسہارالیکرجلدازجلداپنے قدموں پرکھڑا ہوجائے۔اس کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں دوست تنظیموں سے بھی رابطوں میں ہیں ان سے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کرائی جاسکے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو،بیروزگاری کاخاتمہ ہواورملک میں جاری معاشی بحران ختم ہو۔ اسی حوالے سے گزشتہ بیرک گولڈ کمپنی کے وفد نے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک برسٹوو کی سربراہی میں شہبازشریف سے ملاقات کی،وفد نے ملاقات کے دوران ریکوڈک منصوبہ سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔وفد سے گفتگو کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ ریکوڈک منصوبہ بلوچستان اور علاقے کی ترقی کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا، اس منصوبے سے صوبے کی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ بلوچستان میں معدنیات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کےلئے مواصلات کے انفراسٹرکچر، خصوصا ریلوے لائن کے حوالے سے منصوبہ سازی کی جائے گی۔ بلوچستان میں معدنیات کے دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری ، ضلع چاغی میں ٹیکنیکل یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے حکومت اور بیرک گولڈ مل کر کام کر سکتے ہیں۔حکومت سرمایہ کاروں کی سہولت کے لئے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے جن میں سڑکوں اور مواصلات کے بہتر نظام کے منصوبے بھی شامل ہیں۔بیرک گولڈ کے وفد نے وزیراعظم شہبازشریف کو ریکو ڈک منصوبے پر پیشرفت پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے کی فزیبیلٹی اس سال کے آخر تک مکمل کر لی جائے گی۔ ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے کےلئے مقامی اور بلوچستان ڈومیسائل کے افراد کو ترجیح دی جا رہی ہے، کارپوریٹ سوشل رسپانسی بیلیٹی کے تحت ریکوڈک کے قریب تین سکولز قائم کئے ہیں۔ بیرک گولڈ کی جانب سے اب تک سو افراد کو فنی تربیت فراہم کی جا چکی ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے وفد نے ملاقات کی۔وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے وفد کا خیر مقدم کیا، ملاقات میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دوستی اور تعاون کو سراہا گیا، صحت، توانائی، انفراسٹرکچر اور تعلیم کے شعبوں میں ایس ایف ڈی کے تعاون کی کوششوں کو سراہا گیا۔ وزیراعظم نے آزاد کشمیر میں ہائیڈرو پاور سٹیشنز کی تعمیر کے لیے 107 ملین ڈالر کے مالیاتی معاہدوں پر دستخط کو سراہا۔ منصوبوں سے مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ قدرتی ماحولیات کا تحفظ ممکن بن سکے گا۔ سعودی عرب، شاہی خاندان کی قیادت میں پاکستان کو ہر ممکن مدد اور مسلسل تعاون فراہم کرے گا۔نیز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی اور ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے اقدامات پر اجلاس ہوا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں آئی ٹی کے شعبے میں خدمات سرانجام دینے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین نے شرکت کی اور تجاویز پیش کیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ملکی ترقی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کلیدی کردار ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملکی معیشت کی ترقی کی موجود وسیع استعداد کو بروئے کار لائیں گے۔ ٹیکنالوجی کے اطلاق سے معیشت کے ہر شعبے میں جدت لے کر آئیں گے اور نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہم عصر تقاضوں سے ہم آہنگ علم و ہنر کی بین الاقوامی معیار کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ آئی ٹی کی فروغ کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی معاونت حاصل کی جائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں اصلاحات اور ڈیجیٹائیزیشن کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے، جس میں عام آدمی کی انٹرنیٹ تک رسائی میں اضافہ، ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کی بہتری، ای-گورننس، نوجوانوں میں ڈیجیٹل اسکلز کی پیشہ ورانہ تربیت، جدت اور اس شعبے میں کاروبار کے فروغ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کاجسٹس شوکت صدیقی بارے تاریخی فیصلہ
سپریم کورٹ نے جسٹس شوکت عزیزصدیقی کیس میں بالآخرفیصلہ صادرفرما دیا ہے اور ان کی کی جانے والی ناجائز اورغیرقانونی برطرفی کو ختم کرکے انہیں ریٹائرمنٹ کاحق دیدیا ہے ۔ انہیں پنشن اوردیگرتمام مراعات کاحق دیدیا گیا ہے اس طرح عدلیہ کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ ملک ،قوم ،اداروں اورخودمدعی کے لئے قابل قبول ہے ۔اس پر سپریم کورٹ بجاطورپرمبارکباد کی مستحق ہے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 23 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا جس کے مطابق شوکت عزیز صدیقی بطور ریٹائرڈ جج پنشن سمیت تمام مراعات کے حقدار قرار ہوں گے۔سپریم کورٹ نے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش بھی کالعدم قرار دے دی۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں تسلیم کیا کہ بدقسمتی سے شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے کے فیصلے میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ گئے اس لیے ریٹائرمنٹ عمر کی وجہ سے اب انہیں بطور جج بحال نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ شوکت صدیقی نے فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے لیکن شوکت صدیقی کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو نوٹس جاری کیے جن پر الزامات لگائے گئے لیکن سب نے الزامات سے انکار کیا، یہ ضروری تھا کہ جوڈیشل کونسل ان الزامات کی تحقیقات کرتی کہ کون سچ بول رہا ہے مگر شوکت عزیز صدیقی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا۔فیصلے کے مطابق جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں ہمیشہ شواہد ریکارڈ کیے جاتے رہے ہیں، مظاہر نقوی کیس میں 14 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے اور شواہد پیش کیے گئے البتہ اس کیس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو عدلیہ کی آزادی اور دوسرا بغیر کسی خوف یا لالچ کے آزادی کے ساتھ فیصلے کرنا اور عدلیہ کی خود احتسابی ہے، کسی جج کو شفاف ٹرائل کے بغیر ہٹانا عدلیہ کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔عدالت کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ درخواستیں مفاد عامہ کے تحت قابلِ سماعت ہیں، عدلیہ کی آزادی کے بغیر بنیادی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شوکت صدیقی نے اپنے حلف کی کیسے خلاف ورزی کی تھی، انکوائری کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزامات جھوٹے تھے، ججوں کا حلف انہیں بار ایسوسی ایشن یا کسی عوامی اجتماع میں تقریر کرنے سے نہیں روکتا۔فیصلے میں 22جولائی 2018کے آرمی چیف کے خط اور 24جولائی 2018 کے وفاقی حکومت کے خط کا حوالہ دیا گیا۔آرمی چیف اور وفاقی حکومت کی جانب سے دو شکایات بھیجی گئیں جن میں الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا، شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات اس لیے بھی ضروری تھیں کیونکہ آرمی چیف اور وفاقی حکومت کو ان الزامات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں تھا، وہ وفاقی حکومت جو 24 جولائی 2018 کے خط میں یہ کہہ رہی تھی کہ الزامات کا تعین ہونا چاہیے اسی حکومت نے 10 جون 2021 کو ایک بیان جمع کروایا کہ یہ الزامات ہی بے بنیاد ہیں، اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کروائے گئے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شوکت صدیقی کے الزامات بے بنیاد تھے۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری کو شوکت صدیقی کیس فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ کیس کی آخری سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ تمام فریقین تسلیم کر رہے ہیں مکمل انکوائری نہیں ہوئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے