پاکستان اور سعودی عرب نہ صرف ہرمشکل اورہرموسم کے سدابہاربرادرانہ دوست ہیں بلکہ دونوں ممالک کی عوام بھی اسلامی یکجہتی کے مضبوط رشتے میں جُڑے ہوئے ہیں۔خصوصاً حالیہ تاریخی پاک سعودی عرب دفاعی معاہدہ کے بعددونوں ممالک کی دوستی ایک نئے دورمیں داخل ہوچکی ہے ۔ولی عہدووزیر اعظم شہزادہ محمد بن سُلمان اِس وقت سعودی عرب میں ترقی کے حوالے سے انقلابی اقدامات کررہے ہیں خصوصاًوژن 2030ء ایک انقلابی منصوبہ ہے ۔اِسی طرح میاں برادران کی ایک خصوصیت جوانہیں تمام ترسیاستدانوں سے یکساں بناتی ہے وُہ یہ ہے کہ اقوام عالم جہاں میاں برادران کی قیادت پربھرپور اعتماد کرتے ہیں وہیں مسلم دُنیابھی میاں برادران کوانتہائی اہمیت اورقائدانہ کردارکے طور پر دیکھتی ہے۔میاںمحمد نواز شریف کادور حکومت یقینا سُنہری رہالیکن وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے انتہائی قلیل مُدت میں انقلابی اقدامات اور خصوصاً اقوام عالم میں اپنے آپ کومنوایاہے کہ وُہ بہترین ایڈمنسٹریٹر کیساتھ ساتھ ایک لیڈربھی ہیں۔ پاک سعودی عرب تعلقات کی گرمجوشی کے حوالے سے بھی وزیر اعظم محمد شہبازشریف ،سپہ سالار فیلڈمارشل آرمی چیف حافظ جنرل سیدعاصم منیر اورسعودی ولی عہدووزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی کاوشیں بھی قابل تحسین ہیں جہاں حالیہ پاک بھارت کشیدگی اورپاکستان کی جانب سے آپریشن بنیان مرصوص میں بھارت کوعبرتناک شکست دی گئی وہیں سعودی عرب نے اِس اہم موقع پر بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔اِسی طرح معاشی حوالے سے بھی دونوں ممالک میں انقلابی معاہدے ہورہے ہیں ۔گزشتہ روزسعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو کانفرنس کے تحت ”کیا انسانیت صحیح سمت کی طرف گامزن ہے؟”کے موضوع پر منعقدہ اعلی سطح کے گول میز مباحثے کاانعقاد کیاگیا جس میں مختلف عالمی راہنمائوں،نمائندوں ،پالیسی سازوں،سرمایہ کاروںنے شرکت کی اوراپنے اپنے خیالات ، مسائل و حل کیلئے آراء کااظہارکیا۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے کی۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے منفرد اور جامع خطاب پر شرکاء نے اِن کی بھرپور پذیرائی کی ۔وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے عالمی اشتراک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن،خوشحالی اور ترقی ہماری ترجیح ہے، جدید ٹیکنالوجی، علم و تجربے کو بروئے کار لانا ہوگا، ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کیلئے قرضے فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ۔ وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے وطن عزیز پاکستان میں حالیہ اقدامات اورچیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے شرکاء کو بتایاکہ پاکستان نے بڑے چیلنجز پر قابو پا لیا ہے اور نوجوانوں کی بڑی آبادی کو مواقع فراہم کررہے ہیں۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ترقی کے وژن کا بھی خیرمقدم کیا۔دورہ سعودی عرب کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کی قیادتوں کے درمیان دوطرفہ ملاقات بھی ہوئی ۔سعودی ولی عہدووزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات میں شہبازشریف،وزیر خارجہ سینٹر اسحاق ڈار،فیلڈمارشل آرمی چیف حافظ جنرل سید عاصم منیرسمیت دونوں ممالک کی کابینہ ارکان بھی موجود تھے ۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور زیر غور آئے اور پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تجارت ، سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ پر گفتگو ہوئی۔دونوں ممالک نے اقتصادی تعاون کا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق کیا جس کے تحت اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری اور ترقیاتی شعبوں میں کئی سٹریٹجک اور اعلیٰ اثرات کے حامل منصوبوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے توانائی، صنعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، زراعت اور غذائی تحفظ سمیت ترجیحی شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے گا۔وزیر اعظم محمد شہبازشریف کادورہ سعودی عرب انتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔ خصوصاًاعلی سطح کے گول میز مباحثے سے خطاب میں جہاں وزیر اعظم نے پاکستان میں قدرتی ذخائرکے حوالے سے اقوام عالم کوآگاہ کیاوہیں وزیر اعظم نے حالیہ سیلاب سے تباہی اورموسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان میں ہونیوالے نقصانات سے بھی آگاہ کیا۔مباحثے کے علاوہ سعودی قیادت سے ملاقات میں تجارتی معاہدوں کے حوالے سے بھی مزید پیشرفت سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت کی مضبوطی اور دونوں ممالک کی قیادت کو متحد کرنیوالے بھائی چارے و اسلامی یکجہتی کے مضبوط رشتے کی عکاس ہے ۔ خصوصاًدونوں ممالک اس وقت کئی مشترکہ اقتصادی منصوبوں کے حوالے سے تعاون پر بھی کام کر رہے ہیں جن میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بجلی کی ترسیل کے منصوبے کیلئے مفاہمتی یاد داشت اور دونوں ممالک کے مابین توانائی کے شعبے میں تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی شامل ہیں ۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی صرف دوممالک نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کی مضبوطی کی بھی ضامن ہے۔

