وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے 12 جون 2025 کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا ایک روزہ سرکاری دورہ کیا۔ یہ دورہ اس سال میں ان کا یو اے ای کا دوسرا دورہ ہے، اس سے قبل وہ فروری میں بھی یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان قریبی اور برادرانہ تعلقات کا مظہر تھا، جو باہمی اعتماد، اسٹریٹجک ہم آہنگی اور مختلف شعبوں میں تعاون پر مبنی ہیں۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان خطے میں سفارتی روابط کو مزید مستحکم کرنے اور اقتصادی شراکت داری کو فروغ دینے کی کوششیں تیز کر رہا ہے۔ یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کی خصوصی دعوت پر یہ دورہ عمل میں آیا، جو دونوں ممالک کے تعلقات کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ابوظہبی کے البطین ایئرپورٹ پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اعلی سطحی وفد کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ انہیں یو اے ای کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زاید النہیان اور دیگر اعلی حکام نے خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعظم کے وفد میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی شامل تھے۔ اس وفد کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دورے کا محور سیکیورٹی، سفارت کاری اور اقتصادی امور تھے۔اس دورے کی سب سے اہم ملاقات وزیر اعظم شہباز شریف اور یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے درمیان ہوئی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماں نے دو طرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ خاص طور پر اقتصادی تعاون پر زور دیا گیا، اور فروری میں طے پانے والے 3 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ یہ معاہدے بنیادی ڈھانچے، توانائی اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں سے متعلق تھے۔ دونوں ممالک نے سرمایہ کاری کے نئے شعبوں کی تلاش پر بھی غور کیا، خاص طور پر پاکستان کی حالیہ معاشی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے، جس میں ترسیلات زر کا ریکارڈ اور اسٹاک مارکیٹ کا 124,000پوائنٹس تک پہنچنا شامل ہے ۔ اسٹریٹجک اور علاقائی سلامتی پر بھی اہم بات چیت ہوئی۔ وزیر اعظم نے حالیہ پاک – بھارت کشیدگی کے دوران ثالثی میں یو اے ای کے مثبت کردار پر شکریہ ادا کیا۔ دونوں ممالک نے افغانستان اور مشرق وسطی سمیت خطے میں استحکام پر زور دیا۔ انہوں نے غزہ میں جاری انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ پاکستانی تارکین وطن کی فلاح و بہبود بھی ایجنڈے کا حصہ تھی۔ مئی 2025 میں صرف یو اے ای سے 3.7 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھیجی گئیں، جو ملک کی معیشت کیلئے بہت اہم ہیں۔ اس اہم دو طرفہ ملاقات کے علاوہ، عالمی امور پر بھی گفتگو ہوئی، جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور اقوام متحدہ میں اصلاحات۔ یہ بات چیت تاجکستان میں منعقدہ گلیشیئر کانفرنس میں وزیر اعظم کی شرکت کے تسلسل میں ہوئی، جہاں انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی اقدامات کی حمایت کی تھی۔ دفاع اور انسداد دہشت گردی سے متعلق تعاون پر بھی بات ہوئی، جس کا اشارہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودگی سے ملتا ہے۔اس دورہ کئی اہم پہلو ہیں اور اس دورہ نے متحدہ عرب امارات کو پاکستان کے تیسرے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار اور مالی معاون کے طور پر مزید مستحکم کیا۔ ماضی میں یو اے ای نے پاکستان کے مرکزی بینک میں فنڈز جمع کرائے، جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران مددگار ثابت ہوئے۔ دونوں ممالک نے باہمی مفاد پر مبنی اسٹریٹجک شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے طے شدہ منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے اور مشترکہ ورکنگ گروپس کے ذریعے قریبی رابطے قائم رکھنے پر اتفاق کیا۔یہ دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں وسیع تر اہمیت رکھتا ہے۔ یہ سعودی عرب، ترکی، ایران اور آذربائیجان کے حالیہ دوروں کے بعد کیا گیا، جو موجودہ جغرافیائی چیلنجز کے دوران علاقائی روابط کو مستحکم کرنے کی منظم کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔ یو اے ای کی اقتصادی تنوع کی حکمت عملی، جسے "پروجیکٹس آف دی 50” کہا جاتا ہے، پاکستان کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت کے ساتھ ہم آہنگ ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی، لاجسٹکس اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں۔ دونوں ممالک نے فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا، جو مسلم ممالک کے درمیان یکجہتی کی ایک مثال ہے۔مجموعی طور پر، وزیر اعظم شہباز شریف کا جون 2025 میں یو اے ای کا دورہ عملی سفارت کاری کی کامیاب مثال ہے۔ اس دورے نے دیرینہ تعلقات کو عملی اقتصادی اور اسٹریٹجک فائدے میں تبدیل کیا۔ اب یہ دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ طے شدہ منصوبوں کو مثر طریقے سے نافذ کریں اور اعلی سطحی روابط کو برقرار رکھیں۔ جیسے جیسے پاکستان اپنی معیشت کو سنبھالنے اور ترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے، ایسے مضبوط شراکت دار اس سفر میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔