کالم

ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ ،شفافیت اور استحکام کے اشارے

اگرچہ پاکستان کے بد خواہ ہمہ وقت مایوسی پھیلاتے رہتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ لک میں بہت کچھ بہتر بھی ہو رہا ہے۔ بس دیکھنے والی مثبت نظر درکار ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے NCPS 2025 جاری کردی ہے۔ اس رپورٹ نے بہت سے مثبت پہلو اجاگر کئے ہیں۔صبح و شام کرپشن کے الزامات کا راگ الاپنے والے ڈھنڈھورچی اب دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں۔ یہ سروے 22 سے 29 ستمبر 2025 کے دوران کیا گیا۔ 2023 میں 1600کے مقابلے میں 2025 میں ملک بھر سے 4000افراد نے سروے میں حصہ لیا۔ شرکا میں 55 فیصد مرد، 43 فیصد خواتین اور 2 فیصد خواجہ سرا شامل تھے۔59 فیصد شرکا کا تعلق شہری علاقوں جبکہ 41 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا۔یاد رہے، یہ سروے بدعنوانی کی اصل شرح نہیں ناپتا بلکہ بدعنوانی کے بارے میں عوامی تاثر کو ظاہر کرتا ہے۔ 66 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ انہیں گزشتہ 12 ماہ میں کسی سرکاری کام کے لیے کوئی رشوت نہیں دینی پڑی۔60فیصد پاکستانیوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے اور ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا۔ ملک کا دیوالہ نکلوانے کے خواہشمند سیاسی مداری حیران و پریشان ہیں کہ ملکی معیشت زبوں حالی سے استحکام اور استحکام سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔43 فیصد شہریوں نے قوتِ خرید میں بہتری جبکہ 57فیصد نے قوتِ خرید میں کمی کی رپورٹ دی۔ سروے کے دوران شہریوں نے شفافیت اور حتساب کے حوالے سے آزادانہ طور پر رائے کا اظہار کیا اور نظام میں مزید بہتری لانے کے لئے بہت سے اقدامات بھی تجویز کئے۔ 51 فیصد شرکا چاہتے ہیں کہ ٹیکس چھوٹ حاصل کرنے والے این جی اوز، ہسپتال، لیبارٹریاں، تعلیمی ادارے اور دیگر فلاحی ادارے عوام سے کوئی فیس وصول نہ کریں۔53 فیصد شرکا کے مطابق ٹیکس چھوٹ یافتہ فلاحی اداروں کو اپنے ڈونرز کے نام اور عطیات کی تفصیل عوام کے سامنے ظاہر کرنا چاہیے۔ سروے کے مطابق بدعنوانی کے تاثر میں پولیس سرفہرست ، جبکہ ٹینڈر اور پروکیورمنٹ دوسرے، عدلیہ تیسرے، بجلی و توانائی چوتھے اور صحت کا شعبہ پانچویں نمبر پر ہے۔ادارہ جاتی سطح پر پولیس کے بارے میں عوامی رائے میں 6 فیصد مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔یہ بہتری قابلِ ذکر ہے، کیونکہ اس بار 4000 افراد نے سروے میں حصہ لیا۔ یہ بہتری ادارہ جاتی اصلاحات کے تحت پولیس کے رویے اور سروس ڈلیوری میں بہتری کی عکاس ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، زمین و جائیداد، لوکل گورنمنٹ اور ٹیکسیشن سے متعلق عوامی تاثر میں بھی بہتری آئی ہے۔
عوامی تاثر کے مطابق بد عنوانی کی بڑی وجوہات میں شفافیت کی کمی، معلومات تک محدود رسائی اور کرپشن کیسز کے فیصلوں میں تاخیر شامل ہیں۔ عوام کے مطابق کرپشن کے خاتمے کے اہم اقدامات میں احتساب مضبوط بنانا، صوابدیدی اختیارات محدود کرنا، حقِ معلومات کے قوانین کو مضبوط کرنا اور عوامی خدمات کو ڈیجیٹل بنانا شامل ہیں۔ 83 فیصد شرکا سیاسی جماعتوں کو بزنس فنڈنگ پر مکمل پابندی یا سخت ضابطہ کاری چاہتے ہیں۔ 70 فیصد شرکا کسی بھی سرکاری کرپشن رپورٹنگ نظام سے ناواقف ہیں۔ این سی پی ایس 2025 کے مطابق 66 پاکستانیوں کو پچھلے 12 ماہ میں کسی سرکاری سروس کے لیے رشوت دینے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ہر تین میں سے دو شہری روزمرہ سرکاری خدمات میں بغیر رشوت کے گزارہ کرتے رہے ۔ صرف ایک تہائی(34) شہریوں نے پچھلے سال رشوت کا تجربہ رپورٹ کیا، دو تہائی نے ایسی صورتحال کا سامنا ہی نہیں کیا۔ تقریبا 60 شہری سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے اور FATF گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد معیشت کو کسی نہ کسی حد تک سنبھالا ملا ہے۔ 43پاکستانی اپنی خریداری کی طاقت میں اضافہ محسوس کر رہے ہیں، جو معاشی سمت میں بہتری کی علامت ہے ۔این سی پی ایس 2025دکھاتی ہے کہ 42شہری گواہوں کے تحفظ کے مضبوط قانون کی صورت میں بدعنوانی رپورٹ کرنے کو تیار ہیں، یعنی نظام کو صاف کرنے میں عوام حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سروے میں نصف سے زائد عوام (51) کہتے ہیں کہ ٹیکس میں چھوٹ لینے والے فلاحی اداروں کو عوام سے فیس نہیں لینی چاہیے، شفاف اور منصفانہ نظام کے حق میں واضح رجحان اجاگر ہوا ہے۔ 53 پاکستانی چاہتے ہیں کہ ٹیکس فری این جی اوز اور اسپتال اپنے ڈونرز اور عطیات کی تفصیل ویب سائٹس پر ظاہر کریں، صاف ستھری گورننس کے حق میں اکثریتی رائے۔ 78 شہری احتسابی اداروں کے اپنے احتساب کے حق میں ہیں، یعنی عوام طاقتور اداروں کو بھی قانون کے دائرے میں مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ سروے نے معاشرے میں منفی رجحانات کے مقابل تیزی سے ابھرنے والے مثبت پہلووں کی بروقت نشاندہی کر کے مایوسی پھیلانے والے عناصر کا موثر رد کیا ہے۔ قوی امید ہے کہ درست سمت میں یہ سفر گامزن رہا تو پاکستان اپنے قیام کے حقیقی مقاصد جلد پالے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے