چند روز قبل مریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد جس میں پاکستان کے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا،بلا شبہ یہ پاکستان کے اند رونی سیاسی معاملات میں کھلی مداخلت ہی تھی، لیکن قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے امریکی قرارداد کے خلاف پاس کی جانے والی قراردکی منظوری بجا طور پر ملک کی خود مختاری کا بر ملا اظہار ہے جو وقت کا تقاضہ تھا ۔ پی ٹی آئی نے قرار داد کی مخالفت کی جو بظاہر افسوسناک ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کو مسترد کرنے کیلئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی جوابی قرارداد کی مخالفت پی ٹی آئی کے دوہرے معیار کو واضح کرتی ہے۔پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت پر مبنی قرارداد کو قومی اسمبلی نے یکسر مسترد کرتے ہوئے مذمتی قرارداد منظور کر کے ایک آزاد اور خودمختار ملک کاثبوت دیا ہے۔اس قرارداد کو بھاری اکثریت سے پاس کیا گیا،پی ٹی آئی کا دیرینہ موقف یہ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہے اورجب اس موقف کے تحت امریکی مداخلت کےخلاف ڈٹ جانے کا وقت آیا تو پی ٹی آئی اس مداخلت کا خیر مقدم کرنے لگ گئی ہے۔اس پہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ پاکستان کی واحد جماعت ہے جس کا کوئی نظریہ نہیں، اس کیلئے ذاتی اور جماعتی مفاد ہی سب کچھ ہے تو بے جا نہیں ہو گا،یہ اس کا عمومی رویہ ہے، کسی بھی وجہ سے اگر فیصلے اسکے حق میں آ جائیں تو عدلیہ بہت اچھی،اگر میرٹ پر ان کے خلاف فیصلے دے تو وہی عدلیہ بری ہو جاتی ہے۔پی ٹی آئی کو اقتدار میں لائے تو اسٹیبلشمنٹ بہت اچھی، لیکن اگر اسکے سیاسی مخالفین کےخلاف استعمال ہونے سے انکار کر دے تو وہ بری۔وہی امریکہ جس پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا کر پچھلے دوسال سے سخت مخالفانہ مہم جاری کر رکھی تھی، جب ملک کے اندرونی معاملات میں امریکہ ایسی مداخلت کرتا ہے جس کا بالواسطہ کچھ فائدہ پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کو پہنچتا نظر آیاتو پاکستان کے اندرونی معاملات میں یہ امریکی مداخلت جائز ٹھہر گئی۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت والی امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کا خیر مقدم کر کے یوں پارٹی آئندہ کیلئے ملکی معاملات میں بڑی طاقتوں کی مداخلت اور ڈکٹیشن کا راستہ کھول رہی ہے، ایک بار یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو ملکی خودمختاری اور اقتدارِ اعلی بار بار کمپرومائز ہو گا، کوتاہ اندیش پی ٹی آئی قیادت اپنے وقتی فائدے کیلئے ملک و قوم کو ایک مستقل عذاب میں ڈال رہی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ قرارداد میں اسرائیل اور کشمیر سے متعلق نکات کو بھی مسترد کر دیا گیا، کم از کم قرارداد کے اس حصے کو تسلیم کر لیا جاتا تو سمجھا جا سکتا تھا کہ پارٹی نے صرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کو ویلکم کیا ہے، کشمیر اور فلسطین کےساتھ نظریاتی وابستگی پر کمپرومائز نہیں کیالیکن افسوس مکمل مخالفت سے یہ بھرم بھی نہیں رکھا گیا۔پارٹی قیادت یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد کی منظوری ان کی موثر لابنگ کا نتیجہ ہے اس لیئے وہ اس مداخلت کو اپنی دوہری کامیابی قرار دے رہے ہیں،یہ دعویٰ ایک طرح سے اعتراف جرم ہے کیونکہ ملکی خودمختاری و اقتدار اعلی پر غیر ملکی حملے کی سہولت کاری کرنا آئین پاکستان کے تحت ایک ناقابل معافی جرم ہے۔جماعت سے تعلق رکھنے والے پارلیمان کے اراکین نے بابنگ دہل اقرار کر لیا ہے کہ ان کی تمام سیاسی جدوجہد کا محور صرف اقتدار کا حصول ہے۔ قومی اسمبلی میں جمعہ کے روزجو قرارداد پیش کی گئی اسکے اہم نکات میں سے سب سے اہم نکتہ امریکی کانگرس سے یہ مطالبہ بھی تھا کہ وہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کے بہیمانہ مظالم، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےخلاف جاری ریاستی تشدد کے خلاف بھی اپنا موقف اختیار کرے اور اس کی مذمت کرے ۔حیرت انگیز طور پراسکی بھی مخالفت کی گئی جوسمجھ سے بالا ترہے ۔ یہ ایک تاریخی سانحہ ہے جس پر جتنابھی افسوس کیا جائے کم ہے۔کیا اقتدار کی ہوس نے سب کو اندھا گونگا اور بہرا کر دیا ہے۔ناقدین بجاسوال کر رہے ہیں کہ کیا ایبسولوٹلی ناٹ کا نعرہ اب حصول اقتدار کےلئے ایبسولیوٹلی یس میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ڈو مور،آئی ایم ایف کا ایک اور مطالبہ
پاکستانی ماہرین کے بقول بجٹ جو پہلے ہی عوام کے لیے خطرے کی گھنٹی کے برابر ہے اور انہیں تعلیم، سفر، خوراک، رہائش، ہر چیز پر اضافی ٹیکس دینا ہو گا،اس پہ مستزاد یہ کہ عالمی فنڈ نے ڈومور کا مطالبہ کر ڈال ہے۔اب عالمی فنڈآئی ایم ایف نے 10 جولائی سے پہلے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)نے بجٹ میں ٹیکس چھوٹ اور رعایتیں ختم کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے۔ آئی ایم ایف نے بجٹ میں سخت معاشی فیصلوں کو معیشت کے لیے ضروری سمجھتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے۔ تاہم وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نیپرا کے نرخوں میں اضافے اور بجلی مہنگی کرنے کے فیصلے پر یکم جولائی سے پیشگی اقدامات کے تحت فوری عمل درآمد چاہتا ہے۔نئے مالی سال میں سبسڈی کو کنٹرول کرنے کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے اور نئے قرضہ پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پر عمل کیا جائے۔آئی ایم ایف کے وفد کا جولائی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کا دورہ متوقع ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہفتے کے روز بجٹ 2024-25 کی منظوری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے پاکستان سے مزید کام کرنے کا مطالبہ کیا۔قومی اسمبلی نے مالی سال 25-2024 کے لیے 18 ہزار 870 ارب روپے کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی۔مزید کام کریں، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بجٹ کی منظوری کافی نہیں۔آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان یکم جولائی سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرے اور گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے متعلق نیپرا کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کرے۔آئی ایم ایف نے ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیز کو ملک کی معاشی بحالی کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔تاہم، آئی ایم ایف نے بجٹ میں حکومت کے سخت معاشی فیصلوں کو سراہا ہے، جس میں ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی میں کمی شامل ہے۔مزید برآں، آئی ایم ایف کے وفد کا جون کے آخری ہفتے میں دورہ پاکستان ملتوی کر دیا گیا ہے، ٹیم کا جولائی کے دوسرے ہفتے میں دورہ کرنے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف کے ڈور مور کے مطالبے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی محتاجی نے بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔اس سے نہ صرف عام اڈمی کا جینا وبال بن چکا ہے ملکہ کارِ سیاست بھی مشکل سے دوچار ہو رہی ہے ،اس اندازہ وزیراعظم کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ بنانا جان جوکھوں کا کام ہے، ایک طرف انکا دباو¿ دوسری جانب عوامی توقعات، معاشی صورتحال میں بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے، آئی ایم ایف زراعت اور کھاد پر ٹیکس لگانے کا اصرار کررہا تھا، انکو ان معاملا ت پر راضی کیا جو آسان کام نہ تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی تمام باتیں مان لیتے تو بہت سے ایسے شعبوں پر بوجھ پڑ جاتا جس سے ہماری مشکلات اور بڑھ جاتی۔
اداریہ
کالم
پارلیمنٹ میں مذمتی قرارداد کی مخالفت سمجھ سے بالا تر
- by web desk
- جولائی 1, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 351 Views
- 6 مہینے ago