کالم

پانچ نومبر امریکا کے صدارتی الیکشن

امریکا میں ہر چار سال کے بعد صدارتی انتخاب ہوتے ہیں۔ امریکا میں دو جماعتیں ایک ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں۔ ایک کا نام ڈیموکریٹک ہے اور دوسری جماعت کا نام ریپلکن ہے۔ یہ جماعت امیروں کی کہلاتی ہے۔ پانچ نومبر کے الیکشن میں ڈیموکریٹک کے صدارتی امیدوار کملاہیرس ہیں اور ریپبلکن کے صدارتی امیدوار ڈونا ٹرمپ ہیں۔ اپ پہلے بھی امریکا کے صدر رہ چکے ہیں۔ بڑی رنگین ہسٹری کے مالک ہیں۔ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق اس وقت ہوا جب ہماری کلاس نے انکے ہوٹل کا وزٹ کیا۔ ہماری کلاس کو خود ویلکم کرنے کے موجود تھے۔ ان کا یہ ہوٹل مین ہٹن نیویارک پارک ایونیو ٹرمپ ٹاور میں واقع ہے۔ ہماری کلاس کے طلباوطالبات جب ہوٹل پہنچے تو ڈونا ٹرمپ نے ہر ایک سے ہاتھ ملایا۔ اسی دوران کچھ اس ہوٹل میں رہنے کےلئے مسافر بھی آئے۔ جس سے کاو¿نٹر پر رش ہو گیا۔ ہم سے معذرت کی اور خود ٹرالی پر مسافروں کا سامان رکھا۔ خیر اس دوران لوڈر نے ان سے ٹرالی لے لی اور دوبارہ ہماری طرف آئے۔ معذرت کی بتایا کہ بزنس آل ویز فسٹ۔ لہذا اگر آپ مالک ہیں لیکن یہ آپ کی جانب ہے کہ کس کو خوش رکھیں۔ اس کے آٹلاٹنک سٹی جو کیسینو کی وجہ سے مشہور ہے وہاں اس کے کیسینو ہیں، ان کے ایک کیسینو کا نام تاج محل ہے۔ یہ اس تاج محل کی کاپی ہے۔ یہ کیسینو لاس ویگس میں واقع ہے۔ امریکا کی ریسلنگ میں کبھی کبھی خود رسیلر پہلوان بن کر حصہ لیتا ہے۔ ابتدائی ایام میں اس نے نیویارک کی پرانی بلدنگ خرید کر ان کو نئے بنا کر فروخت کرتا تھا۔ دنیا کے حسن کے مقابلے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان کی موجودہ بیگم بھی مقابل حسن میں نمبر ون تھی۔ اس کے اپنے ہوائی جہاز ہیں۔ لموزین ہیں۔ یعنی دنیا کی ہر نعمت اس کے پاس ہے۔ اس کو اپنی زبان پر کنٹرول نہیں۔ جس کی وجہ سے یہ خبروں کی ذینت بنا رہتا ہے۔ لیڈیز اور جواں نسل میں بہت مشہور ہے۔اس نے الیکشن سے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ اگر میں الیکشن ہارا تو میں اس الیکشن کو نہیں مانوں گا۔ جبکہ کملا ہیرس نے کہا ہے میں الیکشن کے رزلٹ مان لونگی ۔ امریکا کی چار پانچ اسٹیٹ ایسی ہیں جن پر الیکشن کا دارومدار ہوتا ہے۔
اس میں مشہور اسٹیٹ پنسلوانیا ہے۔جسکا پہلے سے اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔کملاہیرس پیشہ کے لحاظ سے اٹارنی ہیں۔ فرانسیسکو سے لا ءکیا آورڈ یونورسٹی سے ماسٹر کیا امریکہ کی نائب صدر رہ چکی ہیں۔ سیاست سے بے پناہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کی مخلص ورکروں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ان کے مد مقابل صدارتی امیدوار ڈونا ٹرمپ بزنس مین ہیں۔ ان کی شخصیت میں وراٹی ہے۔ پاکستانیوں سے عادات کے حوالے سے بہت قریب ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں مخالف سمت کی جانب سفر کرنے کی۔ امریکا میں ووٹ مشین کے ذریعے دی جاتی ہے۔مگر ٹرمپ صاحب فرماتے ہیں کہ مشین کے بجائے پیپر ووٹ ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھی پاکستانی ہیں۔یہ ان سے پوچھتے رہتے ہیں کہ وہاں کیسے لوگ جیتاکرتے ہیں۔ وہ انہیں بتاتے ہیں کہ ایک بندہ چالیس پچاس ووٹ ڈالتا ہے۔ پوچھا وہ کیسے۔ بتایا گیا کہ ایک پارٹی ورکر پیپرز پر ووٹ ایک ساتھ ڈالتا ہے۔ ایسے ہی ہزار بندے ووٹ ڈالتے ہیں اور ان کا لیڈر جیت جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ جتانے میں ان کارول بڑا اہم ہوتا ہے جو ان میں غباروں کی طرح ہوا بھرتے ہیں۔ مگر ہوا کارخ پہ اڑنے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ تجربہ ناکام ہے۔ بس پیپر ووٹ ہی جیت کا واحد حل ہے۔ کہا کاش پہلے بتایا ہوتا تو مشینوں کو چھوڑ کر پیپر ووٹ کو جگہ دیتے۔ امریکا کا صدر خود چلتا نہیں اسے چلایا جاتا ہے۔پالیساں ایک دن میں نہیں بناتے۔ بنانے والے بناتے رہتے ہیں۔ لہذا دوسرے ممالک کو اپنے ایک ادارے سے چلاتے ہیں جیسے آئی ایم ایف۔ امریکا اس کے ذریعے تیسری دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔کہا جاتا ہے ان کے ادارے دوسرے ممالک کے حکمران بناتے ہیں پھر کام لینے کے انہیں گھر بھیج دیتے ہیں۔ حکمران اور عدلیہ انکی مٹھی میں رہتے ہیں۔انہیں استعمال کر کے ٹیشوپیپر کی طرح ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔یہ کہنا کہ اس الیکشن میں فلاں جیتا تو ہماری سیاست بدل جائے گی۔ قیدی رہا ہو جائیں گے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے ادارے کام کرتے ہیں۔ لہذا جو بھی صدر بنے گے وہ اپنی پالیسیوں کے مطابق ہم سے تعلقات رکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے