کالم

پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

افغانستان سے جان چھڑانے کے بعد مغربی اتحاد کو جہاں ایک جانب روس نے یوکرین جنگ میں الجھادیا، مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتحال نے ان کی توجہ کو مزید تقسیم کردیا اور اسرائیل پر ایرانی حملے نے ان کے خوف میں مزید اضافہ کردیا،دوسری جانب معیشت کے میدان میں چین ان کے قابو سے باہر ہوچکا ہے تو ایران سینہ تان کر ان کے مقابل کھڑا ہو چکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہ مغربی اتحاد اب اپنے منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی بالادستی کو برقراررکھنے کی تگ و دو کر رہا ہے اور مختلف اطوار سے مسلمان ممالک پر دباﺅ ڈالنے کےلئے کوشاں ہے ،ایرانی صدر کا دور پاکستان بھی اس تناظر میں دیکھا گیا جس سے پہلے اور بعد میں پاکستان پر مختلف اطوار سے دباﺅ ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی ہے کہ پاک ایران تعلقات مضبوطی کی جانب آگے نہ بڑھ پائیںکیونکہ ان دو پڑوسی مسلمان ممالک کے اتحاد سے امریکہ اور مغربی اتحاد کے مفادات کو شدید ضرب پہنچتی ہے ۔پاک ایران تعلقات میں گیس پائپ لائن منصوبے کو انتہائی اہمیت حاصل ہے جو کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم اور پرانا منصوبہ ہے لیکن امریکی مداخلت نے اس منصوبے کو ابھی تک مکمل نہیں ہونے دیا ،پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں بنیادی پیش رفت تو اس وقت ہوئی تھی جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 2013میں ایران کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے بعد دس سال تک یہ منصوبہ امریکی مداخلت کی بھینٹ چڑھتا رہا اور اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ،اس منصوبے پر دوسری پیش رفت گزشتہ سال اس وقت ہوئی جب میاں شہباز شریف پی ڈی ایم اتحاد کے وزیر اعظم بنے اور ان کے بعد نگران حکومت نے بھی اس منصوبے پر پیش رفت کو آگے بڑھایا ،اب انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوچکے ہیں اور ساتھ ہی آصف علی زرداری صدرمنتخب ہوچکے ہیں ،دونوں قائدین اپنے اپنے ادوار میں پہلے بھی اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں کوشاں رہے اور یقینی طور پر اب اس منصوبے کو تکمیل کی جانب لےجانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایرانی صدر کے دور ہ ئِ پاکستان کے دوران اگرچہ گیس پائپ لائن کا تذکرہ نہیں کیا گیا لیکن قیاس یہی ہے کہ پس پردہ اس منصوبے پر اہم پیش رفت کی گئی ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے ایران نے ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ منصوبے میں ایران اپنے حصے کا کام کرچکا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے منصوبہ رکاوٹوں کا شکار ہے ،پاکستان نے ایرانی بارڈر سے لیکر گوادر تک80کلومیٹر گیس پائپ لائن نصب کرنی ہے جسے امریکی ایما پراب تک نہیں بچھایا جا سکا ،اگر پاکستان اس منصوبے کو تکمیل کی جانب لیکر نہیں جاتا تو ایران عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف18ارب ڈالر تک ہرجانے کا دعویٰ کرسکتا ہے ، گزشتہ سال جب اس منصوبے پر پاکستان نے دوبارہ پیش رفت کی تو اس کے بعد سے امریکی حکومت پاکستان پر دباﺅ بڑھاتی دکھائی دیتی ہے ،امریکی محکمہ خارجہ نے یہ واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اس پائپ لائن کو سپورٹ نہیں کرتا اور اس کی تعمیر سے پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ایرانی صدر کے دورہ ئِ پاکستان سے کچھ دن قبل امریکہ کی جانب سے چار کمپنیوں پر اس الزام کے تحت پابندیا ں لگائی گئیں کہ ان کمپنیوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام میں تعاون کیاتھا ،درحقیقت یہ ایک کھلی دھمکی تھی کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو امریکی خواہشات تک محدود رکھے وگرنہ اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا،یہی نہیں ایرانی صدر کی واپسی کے بعد پاکستان کے بارے میں ایسی رپورٹس جاری کرنا جن میں پاکستان کو عالمی سطح پر غیر مستحکم یا کمزور ظاہر کیا جائے،امریکی ناراضگی کی علامت ہیں ،امریکی محکمہ خارجہ نے ایرانی صدر کے دور ئِ پاکستان کے تناظر میں ایک بار پھر یہ وضاحت جاری کی کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے میں احتیاط سے کام لیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے امریکہ پابندیاں لگا سکتا ہے ،درحقیقت یہ سب اسی پالیسی کا تسلسل ہے جن کے ذریعے پاکستان کو دباﺅ میں لاکر ایران سے دور کرنا مقصود ہے ،امریکہ اور مغربی طاقتوں کا دو غلا پن اب ڈھکا چھپا نہیں ہے جو ممالک امریکی مفادات کےلئے کام کرتے ہیں ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جاتی جبکہ دوسری جانب مسلمان ممالک کو بے جا پابندیوں کے ذریعے مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے ۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ نہ صرف توانائی بلکہ ہماری معیشت کےلئے بھی انتہائی اہم ہے ،ماضی میں بھی اس منصوبے پر کوتاہی برتی گئی ہے جس کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑا،اب اس معاملے میں کوتاہی یا غیر معمولی تاخیر ملک کےلئے شدید نقصان کا موجب بن سکتی ہے اور اس سلسلے میں امریکی خواہشات یا پابندیاں پاکستان کے مفادات پر شدید ضرب لگانے کے مترادف ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک و قوم کے مفادات کو مد نظر رکھ کر آزادانہ فیصلے کئے جائیں اور سفارت کاری کے ذریعے امریکہ و دیگر مغربی اتحادیوں کو یہ باور کرایا جائے کہ اس منصوبے کی مخالفت پاکستان دشمنی کے طو ر پر دیکھی جائے گی ،خوش آئند بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس منصوبے کو تکمیل تک لے جانے کی تگ و دو کر رہی ہے بالخصوص وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں اس کی تکمیل کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں ،امید ہے کہ اب اس منصوبے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرکے اسے تکمیل تک پہنچادیا جائے گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے