کالم

پاکستانی اردو افسانے پر ایک نئی روشنی

اجتماعی انسانی زندگی کے حددرجہ حساس تجربے ، قضیئے اور واقعے کو اکیسویں صدی کی فہم اور تازہ فراست کا حصہ بنانے کی ایک کامیاب کوشش ڈاکٹر عذرا لیاقت کی تازہ تحقیق بہ عنوان ؛ ‘پاکستانی اردو افسانے میں ترک وطن کا اظہار’کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اردو زبان و ادب کا قاری ترک محبت ، ترک وفا ، ترک الفت ،ترک نامہ و پیام اور اگر وہ ستر اور اسی کی دہائی میں بڑے شہروں کے دیواری ادب سے بھی آشنا ہے تو ترک افیون کی ترکیب اور شاید تدبیر سے بھی واقف و آگاہ ہو گا۔ اردو ادبیات میں ترک کرنے کی روایت بڑی ہی قدیم ہے۔ میر تقی میر اقلیم مہر و وفا کے جملہ حقائق و معارف کے نصاب سازوں کے سربراہ شمار کئے جاتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ؛
موسم گیا وہ ترک محبت کا ناصحا
میں اب تو خاص و عام میں بدنام ہو چکا
ناآشنائے حرف تھا وہ شوخ جب تبھی
ہم سے تو ترک نامہ و پیغام ہو چکا
یہ تو ہوئی ایک بات، پر ترک کی ان صورتوں کے ساتھ ساتھ میر تقی میر ترک وطن کے متنوع معنی اور جدا اثرات کا ادراک بھی رکھتے تھے ۔ جب وہ کہتے ہیں کہ؛
ترک وطن کیا ہے عزیزوں نے چاہ میں
کر جائے کوئی رفتہ سفر تو ہے کیا عجب
تو گویا وہ ترک وطن کو کسی وجہ، جواز یا ضرورت کے ساتھ مشروط خیال کرتے ہوئے بڑی وجہ محبت کو قیاس کرتے ہیں۔ لیکن اگر شاعرانہ تخیئل کی سرحد سے باہر نکلیں تو ترک وطن کی وجہ کوئی مجبوری ، کوئی خواب ،کوئی عزم، کوئی ہنگامہ یا فساد بھی ہو سکتی ہے ۔ ہمارے یہاں گزشتہ صدی کے وسط میں ترک وطن کے تصور اور چلن نے علحدہ وطن کے قیام کے بعد والی دہائیوں میں دوام پایا۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی بغیر کسی پیشگی اطلاع یا اندازے کے ، ایک جبری ہجرت کا ماحول پیدا کیا گیا۔شاید تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کے خفیہ نکات میں پنجاب کی تقسیم کو تشدد اور قتل و غارتگری سے آلودہ کرنا بھی شامل رہا ہو؟جو بھی ہو، پنجاب کی ہجرت دونوں اطراف المناک کہانیوں کا عنوان بنی۔ ہجرت کا عمل اپنے اثرات کے اعتبار سے”تبدیلی مذہب“کے تجربے سے کم تر ہرگز نہیں ہے ۔اگر پہلا عمل انسان کو اپنے جغرافیے سے جدا کرتا ہے،یا کرنا چاہتا ہے، تو دوسرا عمل انسان کو اس کے اجتماعی ذہنی تجربات، حافظے ، ثقافتی ورثے اورثروت خیز تاریخ سے الگ کر دیتا ہے۔ دونوں زخموں کا اندمال آسان نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے تاریخی تجربات تو باور کراتے ہیں کہ مہاجروں نے مقامیوں کے حال کا شریک بن کر بڑی مہارت سے ان کے مستقبل پر تصرف حاصل کرلیا۔ براعظم امریکہ میں”مہاجروں“نے مقامیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اب قدیم کتابوں یا ہالی ووڈ کی چند فلموں تک محدود رہ کر معدوم ہونے کے قریب ہے۔اسی طرح براعظم افریقہ کے مختلف علاقوں کی مثالیں بھی ذہن میں تازہ کی جا سکتی ہیں۔ ہجرت ، جلاوطنی اور ترک سکونت اپنے جواز ،وقوع اور اثرات و نتائج کے اعتبار سے باہم مختلف اور متنوع دکھائی دیتے ہیں۔ بے وطنی اور مسلسل مہاجرت انسانوں اور اقوام کے ضمیر اور کردار پر مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔ایک بڑی مثال یہودیوں کی قیاس کی جا سکتی ہے کہ صدیوں کی دربدری نے انہیں اپنی اہمیت و عظمت کو زمین یا وطن کی بجائے علم اور معیشت کے ساتھ جوڑنے پر قائل کر لیا تھا، لیکن منفی اثر نے صیہونیت کو جنم دے کر علم ، اعتدال اور معیشت پر مدار کرنے والے یہودیوں میں سے اکثر کو انتہا پسندی کے جنون میں مبتلا کردیا اور وہ واضح طور پر مسیحی ریاستوں کے اکساوے میں آ کر فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا ، باالخصوص مشرق وسطی کے امن کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف ہوگئے،اور یہ بات بھول گئے کہ جن فلسطینیوں کو وہ اجتماعی قتل عام کا نشانہ بنا کر اپنی سلامتی کا سامان کر رہے ہیں،وہی بالآخر ان کے لیے ابتلا کا باعث بن جایئں گے۔تو حب وطن اور جبری ہجرت کے اثرات کے مابین توازن اور تحمل کو پیدا کرنے کی منزل ابھی شاید بہت دور ہو۔ڈاکٹر عذرا لیاقت کی موضوعاتی تحدید نے انہیں پاکستان میں لکھے جانے والے اردو افسانے میں ترک وطن کی مختلف و متنوع جہات کے اظہار و ابلاغ کی تحقیق، تنقید اور تجزیے پر متوجہ رکھا ہے ۔ اچھا ایک حیرت انگیز مماثلت؛ اس مماثلت کا ذکر ضمنی طور پر کر رہا ہوں ۔تاکہ اردو افسانے کے تقسیم سے پہلے اور بعد والے سراپے کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکے۔ اردو افسانے کے ساتھ بھی پاکستان میں کچھ ویسا ہی ہوا ،جو فیض احمد فیض کی شاعری اور زندگی کے ساتھ پیش آیا تھا ، یعنی یہ کہ ؛فیض احمد فیض چھتیس برس تک برٹش انڈیا کے شہری رہے ، تعلیم مکمل کی ، استاد بنے ، عشق کچھ بتائے کچھ چھپائے ، اور ایک ادھ کر بھی لیا، استاد ہوے ، پھر استاد سے فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کا حصہ بنے ،گویا برٹش انڈیا کی سرکار کے کچھ کچھ داماد سے بن گئے تھے ۔اسی دور میں کچھ عشق اور کچھ کام کرنے کے دوران نئی دنیا ، آزاد فضا اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے خواب بھی دیکھتے رہے۔گویا یہ چھتیس سالہ زندگی ایک جوان کے لیے خاصی بامراد زندگی خیال کی جا سکتی ہے ،پھر پاکستان بن گیا اور فیض احمد فیض سینتیس سال تک پاکستان کے شہری رہے ۔جن علاقوں میں پاکستان بنا ،فیض وہاں کے مقامی تھے ،لہٰذا مہاجر ہونے کی نوبت نہیں آئی ،لیکن اس سے پہلے کہ وہ نئے ملک میں دست صبا کو تھام کر اس کے اثرات کو محسوس کر سکتے ، زندان ان کی زندگی اور تجربے کا حصہ بن گیا۔اسی زندانی وطن نے فیض احمد فیض کو جلاوطنی کے کرب اور درد سے آشنا کیا۔اسی مثال پر قیام پاکستان سے پہلے کے اردو افسانے کے معیار ،مقدار، وقار ، موضوعاتی تنوع اور اعتبار کو دیکھیں اور پاکستان بننے کے بعد والے پاکستانی اردو افسانے کو ،تو شاید بہت زیادہ نہ سہی ، کچھ نہ کچھ مماثلت فیض احمد فیض کے تجربے سے متصل نظر آتی ہے۔
(……..جاری ہے)
تقسیم برصغیر سے پہلے کے اردو افسانے کے کینوس اور موضوعات میں ،اور قیام پاکستان کے بعد والے ادوار کے اردو افسانے کے کینوس اور موضوعات میں ایک واضح فرق اور تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے ۔قیام پاکستان کے بعد یہاں کے اردو افسانے میں ہجرت ایک حاوی موضوع بن کر چھایا رہا۔یہ ایک بالکل الگ بحث ہے کہ مہاجر مقامی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اوریہ کہ مقامی مہاجر کو اپنانے اور اپنا بنانے کے لیے کیا کچھ قربان کرنے کی سکت رکھتے ہیں ، لیکن تقسیم ہند کے دوران ہونے والی مہاجرت بھی ایک قسم کی نہیں تھی، ایک ہجرت تقسیم پنجاب کے نتیجے میں پھوٹنے والے فسادات یا قتل و غارت کا نتیجہ تھی اور تاریخ کا ایک بڑا المیہ شمار کی جاتی ہے، دوسری ہجرت وسطی ہندوستان سے خاندانوں کی اپنے لیے بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان کے "جیسے تیسے” ترقی یافتہ شہروں میں منظم ترک سکونت والی ہجرت تھی۔اس ہجرت کے اثرات و نتائج تقسیم پنجاب والی ہجرت سے الگ اور مختلف رہے۔ ڈاکٹر عذرا لیاقت نے اپنی پی ایچ ڈی سطح کی سندی تحقیق کے لیے ‘پاکستانی اردو افسانے میں ترک وطن کا اظہار’ کو تحقیق، تنقید، تعبیر و ترتیب ، ہجرت ، ترک وطن ، بے وطنی ، جلاوطنی اور ترک سکونت کے حوالے سے تحدید کردہ مواد کی منطقی تشکیل اور دستیاب نتائج کے معروضی تجزیے کا عنوان بنایا ہے۔ یہ حد درجہ پیچیدہ اور مختلف موضوع تھا۔ ترک وطن بھی کوئی سیدھا سادا عمل نہیں ہے۔ایک فرد یا افراد بعض وجوہ کی بنا پر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیئے جائیں، تو ان کے ترک وطن کا عمل ہجرت کہلائے گا۔ہجرت مقصد اور مجبوری ، دونوں بنیادوں پر ہو سکتی ہے۔ اگر وطن اپنے کسی شہری کی سکونت کو ناممکن بنانے پر تلا بیٹھا ہو تو پھر شہری کے لیے جلاوطنی ہی واحد راستہ بچتا ہے۔اسی طرح بہتر مستقبل کے اور معاشی و تعلیمی امکانات کی تلاش میں اپنے ارادے سے اپنے آبائی وطن سے کسی دوسرے ملک جانا ترک سکونت کی ذیل میں آتا ہے۔اور اس وقت دنیا میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بہتر مواقع اور روشن مستقبل کی تلاش میں مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہے ۔اور ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد ادبا و شعرا کی بھی ہے ،جن کا تخلیق کردہ ادب ”مہجری ادب“کہلاتا اور اپنا امتیاز قائم کرتا ہے ۔ان تمام صورتوں کے علاوہ ڈاکٹر عذرا لیاقت نے ایک جدا قسم کی جلاوطنی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔یہ انتہائی قوی اور بامعنی اشارہ ان کے گہرے مطالعے، عمیق مشاہدے، اجتماعی پاکستانی نفسیات اور تخلیق کاروں کے کرب دروں سے آگہی پر بنیاد کرتا دکھائی دیتا ہے ۔وہ کتاب کے حرف آغاز بہ عنوان نئے وطن کو وطن کہیں گے ، یہ طے ہوا تھا؛ میں لکھتی ہیں کہ؛ ۔جلا وطنی کی ایک صورت جسم کے ساتھ ساتھ ذہن سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ کسی بھی ریاست میں بسنے والے بے شمار افراد جب ریاستی قوانین یا سماجی جکڑ بندیوں میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، نیز دوسری طرف بے شمار مجبوریاں اور پابندیاں انھیں ترک وطن کے تجربے سے بھی نہیں گزرنے دیتیں تو بہ امر مجبوری انہیں اسی سرزمین پر رہنا پڑتا ہے جس میں وہ خود کو ان فٹ سمجھتے ہیں اور یوں ذہنی جلا وطنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذہنی جلا وطنی کا یہ رویہ ایسے انسانوں میں بیزاری، احساسِ مغائرت، بیگانگی، خوداذیتی اور لاتعلقی کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔اگر پاکستان کی قومی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو یہاں اقتدار کا ایک بڑا حصہ آمرانہ حکومتوں پر مشتمل نظر آتا ہے۔ جس میں افراد کی شخصی آزادی اور انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا۔ ان حکومتوں کے دوران مریضانہ داخلیت پسندی، احساس مغائرت اور نفرت کا وہ جذبہ بھی (کسی لاوے کی طرح) لوگوں کے داخل میں پنپتا رہا جس نے کبھی شاعری تو کبھی فکشن میں علامتی اور تجریدی صورت میں اپنا کتھارسس کیا۔ گویا یہ صورتِ حال بھی ذہنی جلا وطنی کے احساس کو نمایاں کرتی ہے کہ جب مخصوص زمین پر رہتے ہوئے لوگوں کی کثیر تعداد اس سے مطابقت پیدا نہ کر سکے۔ ذہنی جلاوطنی کا سراغ صرف وہ محقق لگا سکتی ہے ،جو زبان وادب کی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق ادب کی جزئیات و کیفیات کا گہرا شعور بھی رکھتی ہو ، اور سیاسی، سماجی ،معاشی اور ذہنی حالات و کیفیات کو ان پر اثر انداز ہونے والے جملہ عوامل سمیت سمجھتی ہو ۔یقینا یہ تجزیہ ڈاکٹر عذرا کی تحقیقی و تنقیدی لیاقت کا برملا اظہار خیال کیا جا سکتا ہے ۔میری رائے میں تو ذہنی جلاوطنی والا پیراگراف کمال کا ہے، اور اسی ایک پیراگراف پر مصنفہ کو سونے میں تولنے کا حکم جاری کیا جاسکتا ہے ۔ ایک منظم محقق کی طرح ڈاکٹر عذرا لیاقت نے اپنی دلچسپ اور معنی خیز تحقیق کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب ترک وطن سے متعلق بنیادی مباحث پر مشتمل ہے۔ڈاکٹر عذرا لیاقت اس باب کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ؛ اس سے قبل عموما ہجرت ، جلا وطنی یا ترک سکونت ایسی اصطلاحات کو مترادفات کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان موضوعات پر تحقیقی کتب کے اندر بھی یہ مغالطے موجود رہے اور قاری جلا وطنی یا ہجرت و ترک سکونت میں امتیاز کرنے سے قاصر رہا۔ اس باب میں مختلف لغات اور ادبی اصطلاحات کو پیش نظر رکھ کر ترک وطن کی ان متنوع صورتوں میں موجود امتیازات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ۔۔ ترک وطنیت کے ان مختلف تجربات کی شناخت بہ آسانی کی جاسکے اور وہ ابہام بھی باقی نہ رہے جو اس سے قبل ہماری ادبی تحقیق میں دکھائی دیتا ہے۔”کتاب کے دوسرے باب میں تقسیم برصغیر کے نتیجے میں ، مختلف علاقوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر پھوٹ پڑنے والے فسادات اور نتیجے کے طور پر ہونے والی ہجرت کے المیے کو موضوع بناتے پاکستانی اردو افسانوں کو تجزیے کا عنوان بنایا گیا ہے۔فسادات اور ہجرت قیام پاکستان کے فورا بعد تخلیق ہونے والے فکشن کا ایک حاوی موضوع رہا ہے۔ کتاب کا تیسرا باب سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی قتل و غارتگری اور ہجرت مزید کے المیے کو اردو افسانے کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس حوالے سے لکھے گئے پاکستانی اردو افسانے نے دیگر پاکستان نواز سرکاری ملازمین اور اردو بولنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ بہاری خاندانوں کی دربدری کے المیئے کو جس تفصیل سے پیش کیا ہے ،وہ جبری دربدری کو ہجرت یا ترک وطن کی اقلیم سے نکال کر وحشت ، پاگل پن اور درندگی کے مظاہر کا حصہ بنا دیتا ہے۔ کتاب کا چوتھا باب پاکستانی اردو افسانے میں جلاوطنی کی مختلف صورتوں کو ان کی وجوہ یا جواز اور نتائج کے ساتھ پیش کرنے کو مطالعے اور تجزیے کا عنوان بنایا گیا ہے۔کتاب کا پانچواں باب پاکستانی اردو افسانے میں ترک سکونت کے تجربات ،واقعات اور اثرات کے اظہار کو موضوع بناتا ہے۔یہ کتاب پاکستانی اردو افسانے کے مشمولات کا ایک بالکل منفرد، مختلف اور دلچسپ تناظر میں مطالعہ و تجزیہ پیش کرتی ہے۔ڈاکٹر عذرا لیاقت کی یہ تحقیق پاکستانی اردو افسانے پر ایک خاص زاویے سے روشنی ہی نہیں ڈال رہی، بلکہ تحقیق و تجزیے کے پورے عمل کو روشنی سے منور اور معمور کر رہی ہے۔اس وقیع کتاب کا سرورق کتاب کے موضوع سے منسلک اور حددرجہ معنی خیز ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے