میں پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مداح اور ایسے نظم حکومت سے بہت ساری امیدیں وابستہ کرنےوالا ایک بے اختیار ووٹر ہوں ۔ووٹر کے طور پربے اختیاراس حقیقت کی وجہ سے لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن میں جیتنے ہارنے کا دارومدار ووٹرز کی حمایت یا مخالفت پر نہیں بلکہ”پیا من بھائے“پر مدار کرتا ہے۔ملک میں پارلیمان کی ہر اہم معاملے میں مکمل خاموشی اور قانون سازی سے عدم دلچسپی کے علاوہ سستے کھانے کھا کر، مہنگی مراعات حاصل کرنےوالے اراکین پارلیمان کے ڈرے سہمے رہنے کی اصل وجہ سامنے آگئی ہے اور وہ وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ ؛ انسانوں کے ووٹوں سے انسانوں کےلئے قانون سازی کرنے کی خاطر بنائی گئی پارلیمنٹ پر ایک مدت سے چوہوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ اگرچہ پاکستان میں اردو ادبیات پر تحقیق و تنقید حد سے زیادہ ترقی کر چکی ہے بلکہ پاکستان میں اب اردو میں تحقیق کا عمل ”مابعد الطبیعیات “تک جا پہنچا ہے پھر بھی یہ بات ہنوز تشنہ تحقیق ہے کہ؛چوہے اردو کے نامور شاعر میر تقی میر کے اشعار اور ان اشعار میں ارزاں کی گئی ہدایات کا مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں ؟ ہر چند پارلیمنٹ میں ان چوہوں کا زیادہ سروکار سرکاری دستاویزات ہی سے رہتا ہے بلکہ شاید یہ بات سچ ہو کہ ؛ پوری دنیا میںدستاویز خورچوہے ہماری پارلیمان ہی میں پائے جاتے ہیں۔شاید اسی دستاویز خوری کے باعث چوہے اپنے آپ کو راز میں نہ رکھ پائے ۔اگر وہ میر تقی میر کا مطالعہ کرنے پر قادر ہوتے،تو اس شعر سے کچھ نہ کچھ تو سمجھ ہی سکتے تھے؛
کسی کے واسطے رسوائے عالم ہو پہ جی میں رکھ
کہ مارا جائے جو ظاہر کرے اس راز پنہاں کو
اب یہ رازپنہاں جونہی عیاں ہوا تو خواب خرگوش کے مزے لیتی حکومت کروٹ لے کر بیدار ہوئی اور اسپیکر قومی اسمبلی نے وفاقی ترقیاتی ادارے عرف سی ڈی اے کو ان چوہوں سے مقابلہ کرنے اور یہ مقابلہ لازمی طور پر جیتنے کا حکم دیا ہے ۔ معتبر تو خیر نہیں کہہ سکتے ہاں باخبر ذرائع کے مطابق چوہوں کی توجہ کا مرکز پارلیمنٹ ہاو¿س کی پہلی منزل ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کی اس پہلی منزل پر وہ معروف کنٹین بھی واقع ہے جہاں حیرت انگیز ریٹس پر کھانے پینے کے سامان اور پکوان دستیاب ہوتے ہیں ۔ویسے تو ہر کنٹین اپنے حصے کے چوہے رکھتی ہے اور ان کو قانون قاعدے کے اندر رکھنے کےلئے کنٹین والے بلیاں بھی پال لیتے ہیںلیکن پارلیمنٹ کے چوہوں کو عام چوہے شمار نہیں کرنا چاہیے۔یہ اپنی خوراک کےلئے کسی کنٹین کے بچے کھچے کھانوں کے محتاج نہیں ہوتے۔پہلے یہ جان لیجئے کہ پارلیمنٹ کی پہلی منزل پر ہوتا کیا کیا ہے؛ اس پہلی منزل پر سینیٹ آف پاکستان میں قائد حزب اختلاف کا دفتر قائم کیا گیا ہے ۔ اسی منزل پر مختلف وزارتوں کی قائمہ کمیٹیوں کے دفاتر بھی ہیں ۔ اسی منزل پر بہت سارے کمیٹی رومز بھی قائم کئے گئے ہیں جہاں نہ صرف سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیںبلکہ مختلف وزارتوں کی قائمہ کمیٹیاں بھی اپنے اجلاس اسی پہلی منزل پر منعقد کرتی ہیں۔اور وہ منزل بھی یہی ہے جہاں پر پارلیمنٹ کا اہم ریکارڈ ذخیرہ کیا جاتا ہے۔میں ستم ظریف کے اس گمان سے تو متفق نہیں ہوں کہ پارلیمنٹ کی حساس دستاویزات کی حفاظت پر مامور عملے نے ان ” افسران بکار خاص“مقرر کر رکھا ہے لیکن ان چوہوں کی دستاویز خوری کی عادت نے کئی ایسے سوالات کو جنم ضرور دیدیا ہے کہ جن کے جواب کبھی نہیں ملیں گے ۔حدود پارلیمان میں چوہوں کی موجودگی اور خوشحالی کا راز اس وقت افشا ہوا جب وفاقی وزارت برائے ہاو¿سنگ اینڈ ورکس کی قائمہ کمیٹی نے وزارت سے متعلقہ کسی معاملے پر 2008 کا ریکارڈ طلب کیا لیکن اس ریکارڈ کو تلاش کرنے کی کوشش میں جو کچھ پارلیمنٹ کے ریکارڈ روم سے دستیاب ہو سکا اس ریکارڈ کا زیادہ ترحصہ تو چوہوں کے نظامِ انہضام کا حصہ بن کر تلف ہو چکا تھا۔ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا کہ چوہوں کی دستاویز خوری پر پارلیمنٹ کا متعلقہ عملہ ناراض ہے یا حد درجہ خوش لیکن ان چوہوں کو یہاں سے نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی ذمہ داری کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کرنے پر ستم ظریف مطمئن نہیں ہے، وہ کہتا ہے کہ ؛ یہی ذمہ داری ایک اور محکمہ زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتا تھا۔شاید ایسا ہی ہو ، لیکن کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اس کے ساتھ ہی جو دوسری ذمہ داری سونپی گئی ہے ،وہ شاید کوئی دوسرا ادارہ پوری نہ کر سکتا ہو۔وہ ذمہ داری چوہوں کوپکڑنے کےلئے پنجروں کے علاوہ تنومند بلیوں کا انتظام کرنے کی ہے۔ اب بلیوں کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ان بھیانک شکلوں کے چوہوں کے مقابلے پر بلیوں کو لانا بھی کسی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ایک عمر رسیدہ بلی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونےوالی سازشوں کا آخری ٹھکانہ ہمیشہ پارلیمنٹ ہی ہوا کرتی ہے ۔ ایسے میں اپنے قد کاٹھ سے کچھ بڑے نظر آنےوالے چوہوں کے مقابل میاو¿ں میاو¿ں کرنےوالی بلیوں کو لانا کسی طور سودمند ثابت نہیں ہو سکتا۔اسی عقلمند بلی نے یہ بھی کہا کہ اب زمانہ میاﺅں میاﺅں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اب اگریہ لوگ سوچتے ہیں کہ ان کی ضرورت اور افادیت باقی ہے تو یہ فریب عقل و فہم کے سوا کچھ اور نہیں۔اس زیرک بلی کی باتوں سے متاثر ہو کر ستم ظریف نے قیاس ظاہر کیا ہے کہ میاں لوگوں کو”مارشل لا”کا سول چہرہ سمجھ کر اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ؛ ن لیگ اور پی ٹی آئی کا باہم معاملہ سوتن والا ہے۔ ان کیساتھ کھیل رچانے والے آج کل پھر سے تقریر کرنے کی پریکٹس کررہے ہیں ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ؛ دو شادیوں والا جب زیادہ بولنا شروع کردے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پھر سے دلہا بننے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ جہاں تک پارلیمان میں چوہوں کی موجودگی ، تصرف اور مصرف کا معاملہ ہے،یہ شاید کبھی ختم نہ ہو سکے ۔
کالم
پاکستانی پارلیمان میں چوہا گردی
- by web desk
- اگست 28, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 104 Views
- 5 مہینے ago