کالم

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان یوں تو دونوں ہمسایہ اسلامی ملک ہیں ۔ اگر افغانستان اسلامی ہوتا تو دہشت گردی نہ پھیلاتا جبکہ پاکستان اسلامی ملک ہونے کا ثبوت دے چکا ہے ۔ لاکھوں افغانستان کے لوگوں کو مشکل وقت میں اپنے ملک میں پناہ د ئے رکھی۔ لیکن اس کا صلہ ہمیں دہشت گردی کی صورت میں ملا۔بھارت ہمارا ازل سے دشمن ہے۔یہ اب ان کے قریب ہیں، ان کے دوست ہیں اور ہمارے دشمن۔ ان حالات میں انہیں مزید برداشت کرنا مشکل ہو چکا تھا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی، مذہبی ، ثقافتی اور نسلی رشتے موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان کے حکمرانوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ اتار چڑھا کا شکار رہے ہیں۔حالیہ برسوں میں سرحدی تنازعات، دہشت گردی اور سیاسی بداعتمادی نے ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ افغانستان کے موجودہ حکمران پاکستان کے بجائے بھارت کے زیادہ قریب ہیں۔ جس کی وجہ سے افغانستان کے حکمران اپنی مرضی سے نہیں بھارت کی مرضی سے پاکستان میں دہشتگردی کرا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔ افغانستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں جب مشکل حالات پیدا ہونے تو پاکستان نے ہر طرح کی مسلم بھائیوں جیسا سلوک اور برتاؤ آپ سے کیا تھا۔ پاکستان کے دروازے افغانیوں کیلئے کھول رکھے تھے۔انہیں چھت دی نوکریاں دیں۔ یہی سے یہ دوسرے ممالک میں جاتے رہے۔ کرکٹ کے میدان میں پوری مدد کی۔ جب میدان میں اترے تو ہمیں دشمن اور بھارتی کرکٹ ٹیم کی خوشیاں مناتے رہے۔ اب اگر کرکٹ میچ ہو رہا ہوتا ہے تو انکی ٹیم پاکستانی ٹیم کے ساتھ نفرت کرتے ہیں۔ اب جب پاکستان نے ان کے رویوں سے تنگ آکر انہیں واپس افغانستان جانے کا کہا ہے تو جہاں پر رہتے تھے اسے مسمار کر کے جاتے دیکھا جا رہا ہے۔ راولپنڈی کے قریبی علاقے ٹیکسلا اور واہ کے علاقوں میں ان لوگوں نے اپنے پالتو جانوروں کو مقامی لوگوں کو پہلے فروخت کیا، کہا جاتے ہوئے اپ کے حوالے کر جائیں گے لیکن جاتے ہوئے ان جانوروں کو زہر دے کر مار دیا اور رات کی تاریکی میں علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ کیا ایسا کر کے یہ پیغام دیا ہیکہ ہم سانپ تھے اپ نے جو دودھ پلایا تھا ہم نے اس کی بھی پر واہ نہیں کی۔ کیا اس چیز کا گلہ تھا کہ ہم نے مشکل حالات میں آپ کا ساتھ کیوں دیا تھا پناہ کیوں دی تھی۔ اب اچھائی کا جواب برائی میں کیوں دیا جا رہا۔کیا ہی اچھا ہوتا جاتے ہوئے اچھی یادیں چھوڑ کر جاتے۔ اللہ ہی آپ کو ہدایت دے۔یہ طے ہے پاکستان میں دہشت گردی بھارت کے کہنے پر یہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس دہشت گردی کے پیچھے یہ سنگدل لوگ اور بھارت ہیں۔ یہ پاکستان کو کمزور کرنے کیلیے بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔بھارت جو انہیں اب کہتا ہے یہ وہی کچھ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہی نہیں اشد ضرورت ہے۔ یہ اپنے رویوں پر غور کریں۔ اس دہشت گردی سے دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔ جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے ایسے حالات میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی کوششیں بارہا کی جا رہی ہیں، مگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ابھی تک ثابت اس لئے نہیں ہو رہے کہ یہ بھارت کے اشاروں پر چل رہے ہیں ؟ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی بنیادی وجوہات چند یہ ہیں۔جیسے سرحدی تنازعات ،افغانستان اسے متنازع مانتا ہے جبکہ پاکستان اسے بین الاقوامی سرحد قرار دیتا ہے۔دہشت گردی اور تحریکِ طالبان پاکستان کا موقف ہے کہ اس کے جنگجو افغانستان میں پناہ لے کر پاکستان میں حملے کرتے ہیںجبکہ افغانستان اس بات کو نہیں مانتا۔دوسری طرف تجارتی تعلقات ہیں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم گو کہ بہت کم ہے، جسے بڑھانے کیلئے بات چیت ضروری ہے ۔افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان سمیت پورا خطہ غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ چیلنجز اور رکاوٹیں ان مذاکرات کو کامیاب بنانے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ اعتماد کی کمی دونوں ممالک میں دکھائی دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگاتے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جب تک دہشت گرد عناصر سرحد کے دونوں طرف سرگرم رہیں گے، مذاکرات کمزور رہیں گے۔ سیاسی نظریات کا فرق واضح ہے پاکستان ایک معتدل اسلامی نظام چاہتا ہے جبکہ افغانستان طالبان اور ٹی ٹی پی ای ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ موجودہ حکومت سخت گیر مذہبی نظام کے حامی ہیں لیکن مذہب سے ان کا دور دور تعلق نہیں ۔ یہاں غیر ملکی مداخلت بھی دکھائی دیتی ہے ۔ بھارت، امریکہ اور دیگر ممالک کی پالیسیاں بھی پاکستان و افغانستان کے تعلقات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اگر نیت اور عزم ہو تو یہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں عوامی امن کی خواہش دونوں ممالک کے عوام رکھتے ہیں جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ اگر تعلقات بہتر ہوں تو تجارت، ٹرانزٹ اور توانائی کے منصوبوں سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا علاقائی استحکام: پاکستان اور افغانستان کے بہتر تعلقات پورے وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے امن کیلئے ضروری ہیں۔دو طرفہ تعاون: تعلیم، صحت تجارت اور سرحدی انتظام میں باہمی تعاون تعلقات مضبوط کر سکتا ہے۔ کامیابی کیلئے ضروری اقدامات کرنے ہو نگے اعتماد سازی دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات کے بجائے حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں۔دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ حکمتِ عملی ضروری ہے ایک دوسرے کے دشمنوں کو پناہ دینے سے گریز کیاجائے۔ سیاسی مکالمہ جاری رکھنا کی بھی ضرورت ہے اگر اختلافات ہوں بھی تو رابطے کے دروازے بند نہ کیے جائیں۔ بین الاقوامی ثالثی جس میں چین، قطر یا او آئی سی جیسے ممالک مذاکرات کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات امن، ترقی اور استحکام کی کنجی ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے دونوں ممالک کواعتماد خلوصِ ، اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔اگر یہ مذاکرات محض بیانات تک محدود رہے تو ماضی کی طرح نتائج صفر ہی رہیں گے، مگر اگر دونوں ملک سنجیدگی سے آگے بڑھیں گے تو یہ مذاکرات خطے کے امن کی نئی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے