یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ایک ایسی سیاسی جماعت رہی ہے جو سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے لیے مشہور ہے۔ اس جماعت کے حمایتیوں اور کارکنوں نے ہمیشہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، خاص طور پر یوٹیوب، کو اپنی رائے کے اظہار اور بیانیے کی ترویج کے لیے استعمال کیا ہے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر تین بڑے آفیشل اکا¶نٹس (عمران خان، تحریک انصاف اور پی ٹی آئی آفیشل) کا تعلق پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان سے ہے اور یہ تینوں اکا¶نٹس بیرون ملک سے عمران خان کی بہن علمیہ خان کے ذریعے بھیجے گئے عمران خان کے پیغامات کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں، پی ٹی آئی سے منسلک کچھ یوٹیوبرز پاکستان مخالف بیانیہ بنا رہے ہیں اور قومی اداروں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔اس کی حالیہ مثال جعفر ایکسپریس اور نوشکی میں ہونے والی دہشتگردی ہے۔ کسے معلوم نہےں کہ ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت نے دنیا بھر میں روایتی ذرائع ابلاغ کو چیلنج کیا ہے، اور پاکستان میں بھی یہی صورتحال دیکھی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جہاں اس کے حمایتی بڑی تعداد میں موجود ہیں اوریوٹیوب چینلز، ٹویٹر اسپیسز اور فیس بک پیجز کو ایک منظم طریقے سے پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم، حالیہ دنوں میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ یوٹیوبرز جو خود کو پی ٹی آئی کا حمایتی کہتے ہیں، وہ پاکستان کے قومی اداروں بشمول فوج، عدلیہ اور دیگر ریاستی عناصر کے خلاف منفی بیانیہ بنا رہے ہیں اوران کا مواد خاص طور پر نوجوان نسل کو متاثر کر رہا ہے جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک ہے۔مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے یوٹیوبرز پر جو سب سے سنگین الزام لگایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والا مواد بنا رہے ہیں۔ بعض چینلز پر دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ قومی اداروں پر تنقید کے ساتھ ساتھ ایسے خیالات کا پرچار کر رہے ہیں جو بجا طور پر ریاست مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ کچھ معروف یوٹیوبرز کی ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے بیانیے کو سپورٹ کر رہے ہیں اور ایسی معلومات پھیلا رہے ہیں جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ صرف مبالغہ آرائی ہے اور پی ٹی آئی کے حمایتی دراصل اپنے لیڈر کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کوئی ادارے کے غلط فیصلوں پر تنقید کرتا ہے تو اسے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اکثر حلقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قومی اداروں کو غیر مستحکم کرنے والا ہر بیانیہ ملک کے مفاد کے خلاف ہوتا ہے۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ یوٹیوب پر پروپیگنڈہ چلانے کا طریقہ کار خاصا منظم ہوتا ہے۔ کچھ چینلز کو مخصوص بیانیہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جہاں مندرجہ ذیل حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں۔ ایسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں جن میں پاکستان کے قومی اداروں کو غیر م¶ثر یا کرپٹ دکھایا جاتا ہے اور: عوام کے ذہنوں میں ایک خاص سوچ پیدا کرنے کے لیے بار بار ایک ہی نکتہ دہرایا جاتا ہے۔علاوہ ازیںبعض اوقات غیر مصدقہ یا غلط معلومات پیش کی جاتی ہیں تاکہ ناظرین میں بے یقینی پیدا ہو اور بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ کچھ یوٹیوبرز کے بیانیے بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان مخالف عناصر کے بیانیے سے مشابہت رکھتے ہیں۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستانی ریاستی ادارے اس معاملے پر خاصے حساس ہو چکے ہیں اور حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیاں اس نوعیت کے مواد کا بغور جائزہ لے رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی یوٹیوبرز کے خلاف قانونی کارروائی بھی دیکھنے میں آئی ہے اور اس ضمن میں سائبر کرائم قوانین کے تحت کئی افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور ان کے سوشل میڈیا اکا¶نٹس کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف، پی ٹی آئی کا م¶قف ہے کہ ان کے حمایتیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آزادی اظہار پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی اکثر اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت سوشل میڈیا پر ان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کا یہ بیانیہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس کے کچھ نمایاں اثرات درج ذیل ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہ لوگوں میں تقسیم پیدا کر رہا ہے اور نوجوان نسل، جو پہلے ہی سیاسی بحرانوں سے متاثر ہے، اس پروپیگنڈے کی وجہ سے مزید مایوس ہو رہی ہے۔علاوہ ازیں پاکستان کے خلاف چلنے والے بیانیے کا فائدہ بین الاقوامی مخالفین اٹھا سکتے ہیں اوراگر ایک جماعت کے حمایتی قومی اداروں کو مسلسل نشانہ بناتے رہیں گے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔اس تما م صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے یوٹیوبرز کا کردار پاکستانی سیاست میں بہت منفی ہو چکا ہے۔ ان کی پہنچ لاکھوں لوگوں تک ہے، اور ان کے خیالات عوامی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم، اگر ان کا بیانیہ ملک دشمن عناصر کے بیانیے سے مشابہ ہو جائے، تو یہ قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔بلاشبہ آزادی اظہار ہر شہری کا حق ہے، لیکن اس آزادی کے نام پر ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا اور پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچانا ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ حکومت، ادارے اور عوام کو چاہیے کہ وہ سچ اور جھوٹ میں فرق کریں اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والے پروپیگنڈے کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔علاوہ ازیں ان دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام ،قومی سلامتی کے ادارووں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےخلاف جو منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ااس کے کرتا دھرتا افراد کو موثر نکیل ڈالی جائے۔