کالم

پاکستان میں چھپے معدنی ذخائر ۔ترقی کے ضامن

معاشی ماہرین نے اس امر کو خصوصی توجہ کا حامل قرار دیا ہے کہ پا کستان کی حکومت،عوام اور معاشرے کے اکثر حلقے اس امر پر متفق ہےں کہ معاشی کمزور ی وطن عزیزکا غالبا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔اسی تناظر میں پاک افواج کے تعاون سے مو ثر اقدامات کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے اسی ضمن میں پاک فوج کے سربرا ہ نے اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے بحیثیت مہمان خصوصی اپنے خطاب میں ملک کے معدنی منصوبوں کو بجا طور پرعوامی ترقی کا زینہ قرار دیتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان میں چھپے خزانوں کی دریافت میں آگے آئیں جو مشترکہ کاوشوں سے زیرعمل لائے جائیں گے۔ پاک سپہ سالار نے حال ہی میں فوج کے تعاون سے قائم کردہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ قوم سرخ فیتے اور بیوروکریٹک رکاوٹوں سے نکل کر آگے آئے اور کامیابیاں سمیٹے۔ مبصرین کے مطابق آرمی چیف کے یہ الفاظ ان تلخ حقائق کی نفی کرتے ہیں جو 76 برس سے محض ذہنی کشمکش تک محدود رہے اور اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یاد رہے کہ مذکورہ کانفرنس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی جبکہ دنیا بھر سے آئے سرمایہ کاروں نے اس میں شرکت کرکے پاکستان کی چھپی ہوئی بے حساب معدنی دولت سطح ارضی پر لاکر اس سے استفادے کے حوالے سے طویل صلاح و مشورے کیے ۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں انگریزی زبان کو وسیلہ اظہار بنایا تاکہ دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے مہمانوں کیلئے ان کا مافی الضمیر سمجھنے میں آسانی ہو۔ انھوں نے قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں اور ان کا انگریزی میں ترجمہ بھی بیان کیا کہ ظاہر ہے کہ قرآن کے پیغام سے بڑھ کر اپنے موقف کی صداقت اور تائید کیلئے کوئی دوسری دلیل نہیں ہوسکتی۔
اسی پس منظر میںوزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ ہم سب سمجھتے ہیں کہ امریکا ایک بہت بڑی معاشی طاقت ہے، اس کی پیچھے تین نام ایپل، گوگل اور ایمیزون بڑے نام ہیں اور ان تینوں کمپنیوں کی مجموعی قیمت 60 کھرب ڈالر ہے اور ان تین کمپنیوں کو امریکا کی معاشی طاقت کا بجا طور پر محور مانا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر امریکا کہتا ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت ہیں۔اسی تناظر میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم نے کہا ہے کہ پاکستان کی صرف معدنیات 61 کھرب ڈالر کی ہیں، جس چیز کو آپ دنیا کی معاشی طاقت سمجھتے ہیں، ان کی بنیادی کمپنیوں کی قیمت 60 کھرب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی معدنیاتی مٹی کی قیمت 61 کھرب ڈالر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے نمبر پر ہم یہاں مٹی نہیں بیچیں گے بلکہ ترقی بیچیں گے، یہ مٹی سے ترقی کا سفر ہے اور اس کی ابتدا ہم کر رہے ہیں، جس میں ہمارا پہلا مقصد غریب کی نوکری ہے۔اسی تناظر میں معدنیات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مصدق ملک نے مزیدکہا کہ معدنیات، کان کنی میں سب سے زیادہ اہم چیز پیدا ہونے والی نوکری ہے، ہمارے بلوچستان میں ہنر مند مزدور ہیں جنہیں روزگار کی تلاش ہے اور جب ہم کدال ڈالیں گے تو ہر کدال کے پیچھے ایک ملازمت ہوگی اور ملازمت دینا ہمارا اولین مقصد ہے۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق متعلقہ وزارتوں سے لیکر ارضیاتی تحقیقی ادارے 55 ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبی معیشت سے اپنا بجٹ ضرور لیتے ہیں لیکن اس کا آوٹ برائے نام تیل و گیس کے معمولی ذخائر سے زیادہ نہیں اور کراچی سے لیکر بلوچستان تک سمندری پٹی میں بے حساب ذخائر ہونے کے باوجود کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پسے غریب عوام مہنگا ترین تیل و بجلی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔اس ساری صورتحال کا سرسری سا بھی جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ تا حال ہم اپنی زمین میں چھپے خزانوںتک موثر ڈھنگ رسائی حاصل نہےں کر پائے البتہ یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ پاک افواج کی قیادت میں حکومت اب اس جانب خاص متوجہ نظر آتی ہے تبھی توایک طرف چند روز قبل (خانےوال) بہت بڑے زرعی فارم کے قیام کی جانب پیش رفت ہوئی تو اس کے ساتھ چشمہ 5و¿ایٹمی بجلی گھر کا افتتاح ہوا ۔معدنی شعبے میں بہت سے نئے منصوبے بن رہے ہےں ۔علاوہ ازیں سیاحت کے فروح اور ماہی گیری کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ فیض احمد فیض نے شائد ایسی ہی صورتحال کےلئے کہا ہو کہ
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوئے تو ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے