گزشتہ سے پیوستہ
اٹھارویں ترمیم کے ثمرات دیکھنے ہوں تو سندھ کے ہیلتھ سیکٹر کو دیکھیں۔ جہاں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صحت کو "کاروبار” (MTI Act) بنا دیا گیا، وہاں سندھ حکومت کا نعرہ ہے: "علاج، عزت کے ساتھ، مکمل مفت”۔
سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن:گردوں کے علاج اور ٹرانسپلانٹ کا عالمی معیار کا ادارہ، جہاں سب کچھ مفت ہے۔
نیشنل(اب سندھ) انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز : امراضِ قلب کا سب سے بڑا نیٹ ورک جو اب 10 شہروں اور 28 چیسٹ پین یونٹس تک پھیل چکا ہے۔ 2023 میں 24 لاکھ مریضوں کا مفت علاج ہوا جن میں دوسرے صوبوں کے مریض بھی شامل ہیں۔
خیرپور کے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزمیں جگر اور گردے کے مہنگے ترین آپریشن، جو عام طور پر کروڑوں کی حد چھوتے ہیں، غریب مریض کے لیے مکمل مفت فراہم ہو رہے۔ ہزار کے قریب لیور ٹرانسپلانٹ ہو چکے، جن میں سے اکثریت غریب خاندانوں کی تھی جن کے پاس رقم تو دور کی بات، بڑے شہر جانے کا خرچ بھی نہیں تھا۔
کراچی میں ہی انڈس ہسپتال اینڈ ہیلتھ نیٹ ورک زیرو بلنگ پر چلتا ہے جہاں مریض سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا جاتا۔ سندھ حکومت سالانہ اربوں روپے کی گرانٹ دے کر اسے پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کررہی ہے، خاص طور پر غریب بستیوں میں۔
سندھ میں صحت کے شعبے میں ایک ایسا یونیورسل ماڈل ابھر آیا ہے جو پاکستان بھر میں کہیں اور اس سطح پر نظر نہیں آتا۔ یہی تو سوشل اسٹیٹ ہے جس کا PPP دعوی کرتی ہے۔ یہ وہ "سوشل اسٹیٹ” ہے جہاں پرائیویٹ سیکٹر کی لوٹ مار کے بجائے ریاست ماں بن کر علاج کرتی ہے۔
تعلیم میں سندھ حکومت نے "پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ” کا کامیاب ماڈل دیا ہے۔ جس کے تحت ہزاروں پرائمری و سیکنڈری اسکول چل رہے ہیں، جن میں لاکھوں بچے، خاص طور پر دیہی سندھ کے، مفت، نسبتا معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پیپلز اسکول پروگرام کے تحت جدید، انگلش میڈیم کیمپس بھی بن رہے ہیں جہاں بنیادی انفراسٹرکچر حکومت دیتا ہے، سسٹم پرائیویٹ پارٹنر چلاتا ہے لیکن فیس صفر۔ یہ وہ ماڈل ہے جس میں نجی سیکٹر کا تجربہ اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ غریب طبقے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ سندھ حکومت نے گزشتہ چند سال میں ایک بڑا سیاسی رسک لے کر93,000 سے زیادہ اساتذہ کو آ ئی بی اے کی ٹیسٹنگ سروس سے گزار کر میرٹ پر سرکاری اسکولوں میں بھرتی کیا، ان میں ہزارہا خواتین، سینکڑوں معذور افراد، اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار شامل ہیں یعنی میرٹ کے ساتھ شمولیت بھی۔
دوسری طرف تھر، جسے کبھی قحط کی علامت سمجھا جاتا تھا، آج پاکستان کو بجلی دے رہا ہے۔ تھر کول پراجیکٹ میں مقامی لوگوں کو روزگار ملا اور تھر فانڈیشن کے ذریعے وہاں اسکول اور ہسپتال بنے۔ اس کے برعکس جنوبی پنجاب ، جہاں 48 سال سے پیپلز پارٹی اقتدار میں نہیں آئی ، وہاں کے کے ریگستان (روہی اور تھل)آج بھی حکمرانوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔
2022 کے سیلاب کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ویژن کے تحت سندھ میں دنیا کا سب سے بڑا ہاسنگ پراجیکٹ شروع ہوا۔ 21 لاکھ گھروں کی تعمیر، یہ محض گھر نہیں، بلکہ ایک معاشی اور سماجی انقلاب ہے۔ 7 لاکھ سے زیادہ متاثرہ خاندان کی خواتین ان گھروں کی ملکیت حاصل کر چکی ہیں ۔ اور باقی گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ یہ پراجیکٹ دنیا کے سب سے بڑے کلائمیٹ ریلیف اور ویمن اسیٹ اونر شپ پروگراموں میں شمار ہو رہا ہے۔
یہ سب کامیابیاں اس تناظر میں اور بھی اہم ہو جاتی ہیں کہ وفاق(چاہے ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی)نے ہمیشہ سندھ کا معاشی راستہ روکا۔ PSDPمیں سندھ کے منصوبے کاٹے گئے، موٹرویز کا رخ صرف پنجاب کی طرف رکھا گیا، مگر سندھ حکومت نے اپنے محدود وسائل سے عوامی فلاح کا راستہ نہیں چھوڑا۔ اگر پاکستانی عوام کو واقعی اسلام بطور دین، جمہوریت بطور سیاست، اور معاشی انصاف بطورِ نظام چاہیے، تو اس کا راستہ صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی سے ہو کر جاتا ہے۔ 58 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی غریب کے چولہے، مزدور کی اجرت اور کسان کی فصل کی بات ہوئی، وہ آواز صرف پیپلز پارٹی نے اٹھائی۔ خامیوں پر تنقید ضرور کریں، لیکن اس جماعت کے "عوام دوست ورثے” کا دفاع کریں کیونکہ یہی پاکستان کی فیڈریشن کی بقا کی ضمانت ہے۔
کالم
پاکستان پیپلز پارٹی کے 58سال
- by web desk
- دسمبر 2, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 15 Views
- 2 گھنٹے ago

