کالم

پاکستان کا آئینی بحران

عدالتیںکمزور، ادارے جانبدار ، اورآئین بے بس پاکستان کس سمت جا رہا ہے۔پاکستان آج ایک ایسے بحران میں پھنسا ہوا ہے جہاں آئین اور قانون محض کتابی الفاظ بن چکے ہیں۔ جو جج فیصلے سنانے کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ خود اسی نظام کے بینیفشری بن چکے ہیں۔ جو ادارے انصاف کے رکھوالے ہونے چاہئیں، وہی بے بس نظر آتے ہیں۔یہ سب دیکھ کر مجھے ایک معزز جج کا وہ جملہ یاد آتا ہے جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا عدالتیں کسی ادارے کے دباو¿ میں آتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں، جج بھی عام آدمی ہوتے ہیں، انکے پاس کیا طاقت ہوتی ہے؟یہ جملہ پاکستان کی عدلیہ کے موجودہ حالات پر ایک کھلا تبصرہ ہے۔جب قانون کسی خاص طبقے کےلئے بنایا جائے اور عدالتیں مخصوص طاقتور مفادات کا تحفظ کریں، تو انصاف کا جنازہ نکل جاتا ہے۔
26ویں ترمیم: پاکستان کے آئین کو 26ویں ترمیم کے بعد ایک موم کی ناک بنا دیا گیا ہے۔ آئین میں اس قدر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں کہ طاقتور حلقے جو چاہیں، جب چاہیں، جیسے چاہیں، کر سکیں۔اب سوال یہ ہے کہ جب قانون ہی اس طرح تشکیل پا چکا ہے کہ فیصلے ہمیشہ طاقتوروں کے حق میں ہوں، تو پھر اپیل کس سے کی جائے؟ جب وہی جج جو اس کرپٹ نظام کا حصہ ہیں، جنہیں اسی قانون کے ذریعے عہدے دیے گئے ہوں، وہ کیسے غیرجانبدار فیصلے کر سکتے ہیں۔یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ بچتا ہے، وہ ہے انقلاب کا۔پاکستان کی سیاست میں ایک نیا منظرنامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ لوگ جو کبھی ایک دوسرے کو بدعنوان اور ملک دشمن کہہ کر جھٹلایا کرتے تھے، آج ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ وہ تمام کردار جو ایک دوسرے کے خلاف بلند آواز میں تنقید کرتے رہے، اب کرسی کی بقا کےلئے ایک دوسرے کے اتحادی بن چکے ہیں۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اقتدار کی بقا کے لیے اکٹھے ہو رہی ہیں، اور ان کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔
عوام کا بڑھتا ہوا اضطراب:ملک میں عدالتی فیصلوں پر عدم اعتماد، مہنگائی کا طوفان، بیروزگاری کی بلند شرح، اور امن و امان کی دگرگوں حالت نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عوام کے ذہن میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کےلئے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ملک کو اس گرداب سے نکالنا ہے تو ہمیں حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔اگر نظام نہیں بدلا تو؟©:یہ سوال ہر دل میں گونجتا ہے۔ ایک وقت ایسے وعدے کیے گئے تھے کہ ملک میں بدعنوانی اور ناانصافی کے خلاف آخری دم تک جدوجہد کی جائے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام کسی ایک شخص کی کوششوں سے بدلا جا سکتا ہے؟مجھے یاد ہے کہ ایک معروف فوجی رہنما نے ایک بار مجھ سے کہا تھا:کوشش کی جائے گی، مگر چاہے جتنی بھی کوشش کی جائے، اگر نظام کی بنیادی ساخت ہی تبدیل نہ ہو، تو تبدیلی ممکن نہیں ۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ پھر کوشش بھی نہ کی جائے؟ اس وقت ان کا جواب تھا کہ کوشش تو کرنی چاہیے، کیونکہ تبدیلی کےلئے کم از کم ایک قدم تو اٹھانا لازمی ہے۔آج اگر وہ معزز رہنما زندہ ہوتے، تو شاید وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے کہ بعض اہم شخصیات نے اپنے فرائض سے منحرف ہو کر نظام کے تحفظ کےلئے کام کیا ہے، نہ کہ اسکی بہتری کےلئے۔ہم نے پاکستان کو بنتے نہیں، ابھرتے اور گرتے دیکھا ہے:ہم نے پاکستان کو بنتے تو نہیں دیکھا، لیکن ہم وہ نسل ہیں جو ایک عظیم قائد کی نسل ہیں۔ ہم نے اس ملک کو ابھرتے دیکھا، ترقی کی منازل طے کرتے دیکھا، اور دنیا کے بہترین ممالک میں شامل ہوتے دیکھا۔پھر ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس ملک کو زوال کا شکار ہوتے دیکھا۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ بہت سے لوگ پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو رہے ہیں۔ لیکن میں یہاں ایک بات کہنا چاہتا ہوں: "اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ مایوسی کفر ہے۔ یہ ملک پھر اٹھ جائے گا، مگر اس کے لیے ہمیں اپنی سطح پر جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔
پاکستان کو اصلاحات کی ضرورت ہے:یہ حالات اسی طرح برقرار نہیں رہ سکتے۔ اس پرانے اور ناقص نظام کو بدل کر ہی پاکستان کی بہتری ممکن ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ایک ایسی مضبوط تحریک سامنے آئے جو اس کرپٹ اور ناقص نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ:آزاد عدلیہ کا قیام یقینی بنایا جائے تاکہ فیصلے سیاسی دباﺅ سے آزاد ہوں۔الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر خودمختار بنایا جائے تاکہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں۔تمام ادارے آئین کے تابع ہوں اور کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہ سمجھا جائے۔تعلیمی اور سماجی اصلاحات متعارف کرائی جائیں تاکہ عوام میں شعور پیدا ہو ۔معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی پر زور دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو اور غربت میں کمی آئے۔اگر ان بنیادی اصلاحات پر عمل نہ کیا گیا، تو یہ نظام مزید جمود کا شکار ہو جائے گا اور عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔
ناامیدی کفر ہے، پاکستان بدلے گا!:گزشتہ شب ایک افطار ڈنر کے موقع پر گفتگو کا موضوع پاکستان کی موجودہ صورتحال تھا۔ اس تقریب میں بین الاقوامی میزبان کے ساتھ کچھ معزز مہمان بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں سے کچھ افراد نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ ملک اب نہیں بدلے گا۔لیکن میں نے سب کو یہی پیغام دیا کہ ناامیدی کفر ہے۔پاکستان کو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے نہیں دیکھا، لیکن ابھرتے دیکھا، ترقی کرتے ہوئے دنیا کے بہترین ممالک میں شامل ہوتے دیکھا۔پھر ہم نے اس ملک کو بکھرتے، زوال کا شکار ہوتے اور ناقص انتظامیہ کے زیر اثر تماشہ بنتے بھی دیکھا۔لیکن ایک بات واضح ہے: یہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔یہ ملک اگرچہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، مگر اگر ہم ہمت نہ ہاریں، تو ان شا اللہ پاکستان ایک بار پھر اپنے اصولوں اور اقدار پر قائم ہو جائے گا۔یہی پیغام میں اپنے قارئین کو دینا چاہتا ہوں۔ حالات برے ضرور ہیں، مگر مایوس ہونے کا وقت نہیں ہے۔ امید اور جدوجہد ہمارا ہتھیار ہے۔پاکستان بدلے گا، ان شا اللہ!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے