(گزشتہ سے پیوستہ)
اسی کی دھائی میں جہاں ایک طرف پاکستان میں گلی گلی ، قریہ قریہ ، کوچہ کوچہ جہاد کی پکار عام ہو رہی تھی،خیرات پر چلنے والے مدرسے خام مجاہدین کی منڈیاں بنے اور ان کے مہتمم ملا لوگ زمین پر بچھی چٹائی سے اٹھ کر اور چھلانگ لگا کر سیدھے پجارو جیب میں جا بیٹھے تھے ، ان کے اردگرد اسرائیل میں مینوفیکچر ہونے اور براستہ مصر پاکستان پہنچنے والی کلاشنکوف بردار محافظوں کا ہجوم نظر آنے لگا تھا ، دوسری طرف انہی سالوں میں؛یعنی اسی کی دہائی کے آغاز میں ہمسایہ ملک بھارت نے اپنے ہاں کمپیوٹر لٹریسی کو پرائمری اسکول سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھااور آج بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا بڑا حصہ دار ہے ۔بھارت میں اس طرح کے فیصلے سیاستدان کرتے تھے جبکہ پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں دیئے گئے محدود اہداف کے مطابق قلیل المدتی پالیسیاں بناتے ہوئے، انفرادی طور پر متمول سے متمول ہوتی چلی گئیں نتیجتاً ؛ ملک سیاسی ،معاشی ، سماجی اور اخلاقی طور پر کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔امر واقعہ یہ ہے کہ؛ ہماری خارجہ پالیسی کے دور رس نتائج کے حامل فیصلے ہمیشہ منتخب پارلیمان کی بجائے فوجی ڈکٹیٹروں نے کئے۔وہ جنرل ایوب خان ہو، جنرل یحییٰ خان ہو،جنرل ضیا الحق ہو یا جنرل پرویز مشرف امریکہ ابرووں کے اشاروں پر کئے گئے فیصلے ہمیشہ خطے میں امریکی مفادات سے ہم آہنگ اور ریاست پاکستان کے مفادات سے بعید رہے۔کچھ ایسے ہی طرزِ عمل کی وجہ سے افغانستان کے حوالے سے ہمارے بنیادی فیصلوں نے افغانستان کو عملاً ہمارے لیے ”دارالحماقت“بنا کر رکھ دیا ہے۔مثال کے طور پر افغانستان کے ساتھ اپنے اختلافات کو سیاسی بات چیت کے ذریعے طے نہ کر سکنا ہماری پہلی حماقت تھی، افغانستان میں روس کی آمد کے بعد اس قضیئے سے لاتعلق نہ رہنا ہماری دوسری حماقت تھی، افغانستان میں امریکہ سوویت روس جنگ کا چھلاوہ بننا ہماری تیسری حماقت تھی ۔ نام نہاد افغان جہاد کےلئے ریاست پاکستان کے معاشرتی ،سیاسی ،معاشی اور اخلاقی ڈھانچے کو ادھیڑ کر رکھ دینا ہماری افغانستان کے حوالے سے چوتھی حماقت تھی۔ افغانستان کے ساتھ قانونی اور باضابطہ تجارت کی بجائے اسمگلنگ کی ترویج اور فروغ ہماری پانچویں بڑی حماقت شمار کی جا سکتی ہے۔افغانستان کے حوالے سے ہماری سب سے موذی حماقت پاکستانی جنگی طالب علموں کی تخلیق اور ترویج کی تھی، یہی حماقت آج کل ریاست کےلئے مصیبت کا عنوان بنی ہوئی ہے۔ افغانستان ماضی میں برطانیہ اور بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں امریکی حمکت عملی کا نشانہ رہا۔سویت روس کی پسپائی کے بعد افغانستان میں نت نئے مناظر کی تشکیل شروع ہوئی ،ان تمام مناظر کا محور اسلام جیسے امن و سلامتی کے دین کو محض جنگ و جدل اور دہشتگردی کا مذہب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ لکڑیوں کے جلتے ڈھیر سے کچھ خشک شاخیں پاکستانی فیصلہ سازوں نے بھی سلگا کر اپنے پاس یہ سمجھ کر رکھ لیں تھیں کہ یہ اچھی والی آگ ہے اور بوقت ضرورت کام آئے گی۔یہی اچھے والے بظاہر پاکستانی لڑاکے اب اپنی خودساختہ شریعت کے نفاذ کے نام پر پورے ملک کا قبضہ مانگ رہے ہیں۔ افغانستان میں ان پسندیدہ شرپسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر کے بھاگ جاتے ہیں۔اگرچہ پاکستان نے ان کے بعض ٹھکانوں کو ہوائی حملے کا نشانہ بنایا ہے ،لیکن حیرت انگیز سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کے پاکستان میں مقیم باقیات کو کیوں کر پکڑا نہیں جاتا؟ آخر کس طرح وہ جہاں چاہیں حملے کر کے نکل جاتے ہیں؟ اس سے بھی زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ گمراہ دہشت گردوں کے حمایتی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں بغیر کسی شرم و حیا کے موجود و متحرک ہیں۔ستم ظریف کی تشویش اور طرح کی ہے،وہ افغانستان کےساتھ پاکستان کی طویل سرحد پر تجارت کے عوض اسمگلنگ کے عمل کے فروغ اور تسلسل سے پریشان ہے ۔وہ سرحدی علاقوں سے متصل معدنیات کے ذخائر کی غیر ریاستی خرید وفروخت پر نالاں ہے ۔وہ ان حساس علاقوں میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے اہل کاروں کے لامحدود تمول پر انگشت بہ دنداں اور پریشان ہے۔زیادہ الجھن اسے اس وقت ہوتی ہے ،جب ایسی غیر مجاذ اسمگلنگ اور بے محابہ ترسیل مال و زر پر قابو پانے اور روکنے کےلئے ریاست کا کوئی قانون یا ضابطہ موثر ثابت نہیں ہوتا۔ ایک تصور یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سرحدی ،قبائلی علاقوں میں اصل تنازعہ قیمتی معدنیات پر تصرف کا ہے ۔یہ قیمتی معدنیات ریاست کی ملکیت ہیں یا ان علاقوں میں ریاست کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے اہل کاروں اور ان کے سہولت کاروں، مقامی عمائدین ، وار لارڈز اور فیلڈ میں کام کرنے والے ٹھیکیداروں کی ملکیت؟ ان الجھنوں نے پاک افغان سرحدوں کے دونوں اطراف موجود و متحرک جتھوں کے مابین ایک طرح کی دو طرفہ افہام و تفہیم پیدا کر رکھی ہے لیکن اب معاملہ اس طرح کی ”چھپی آشنائی“کی حدود سے باہر نکل کر کرائے کی جنگ میں ڈھل رہا ہے۔ افغانستان میں پناہ گزین دہشت گرد اب بھارت کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ان کی تشکیل و تربیت کرائے کی جنگوں کے لیے کی گئی تھی اور اب بھی یہ لوگ اسی مشق میں مصروف ہیں ۔دو ریاستوں کے مابین تعلقات میں توازن اور حسن ترتیب سیاستدانوں کا کام ہوتا ہے ، سیکیورٹی اہلکاروں کا نہیں۔افغانستان کے اندر اپنے لیے گہرائی تلاش کرتے کرتے کہیں ہم اپنا ذہنی اور زمینی توازن تو نہیں کھو بیٹھے؟ اور کیا افغانستان ہمارے لیے دارالحماقت ثابت تو نہیں ہو رہا؟
کالم
پاکستان کا دارالحماقت: افغانستان
- by web desk
- جنوری 15, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 24 Views
- 4 دن ago