تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان کا تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے بحرانوں، عدم توازن اور کمزور پالیسیوں کا شکار رہا ہے۔ شرح خواندگی کی کمی، اسکول سے باہر بچوں کی بڑی تعداد، ناکافی بجٹ اور سہولیات کی قلت وہ بڑے چیلنجز ہیں جن کا سامنا ہمیں آج بھی ہے۔ پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام اور اس کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے ضروری ہے تاکہ ان خامیوں کی نشان دہی ہو سکے جنہیں دور کیے بغیر ترقی کا خواب شرمند تعبیر نہیں ہو سکتا۔
سال 2021-2022کے مطابق، پاکستان میں شرح خواندگی تقریبا 62.8 فیصد ہے، جبکہ شہری اور دیہی علاقوں میں اس میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شرح 77.3 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں صرف 54 فیصد ہے۔ اگر جنس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مردوں کی شرح خواندگی 73.4 فیصد ہے اور خواتین کی 51.9 فیصد، جو صنفی تفاوت کو ظاہر کرتی ہے۔تعلیم سے محروم بچوں کی صورتحال بھی نہایت تشویشناک ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریبا 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جو اس عمر کے بچوں کی کل تعداد کا 39 فیصد بنتے ہیں۔ 2016-2017 میں یہ تعداد 2 کروڑ 20 لاکھ تھی، تاہم آبادی میں تیز رفتار اضافے اور تعلیمی نظام کی سست روی نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے پرائمری سطح کے ہیں، جن کی تعداد تقریبا 1 کروڑ 7 لاکھ 70 ہزار ہے۔ یہ حقیقت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ابتدائی تعلیم کو اولین ترجیح دینا نہایت ضروری ہے۔تعلیم کے لیے بجٹ کی تخصیص بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مالی سال 2023 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم پر مجموعی اخراجات ملک کی مجموعی پیداوار (GDP) کا صرف 1.5 فیصد تھے، جو کہ 2022 کے 1.7 فیصد سے بھی کم ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف عالمی معیار بلکہ علاقائی ممالک جیسے بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھی بہت کم ہیں۔
سال 2024-2025 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے مختلف اعداد و شمار اور رپورٹس کے مطابق، مجموعی طور پر 93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں وفاقی وزارت تعلیم کے لیے 25.75 ارب روپے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے لیے 66.31 ارب روپے شامل ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق تعلیم کے امور اور خدمات کے لیے 103.781 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں معمولی اضافہ ہے۔اب اگر ترقی یافتہ ممالک جیسے فن لینڈ، کینیڈا اور جرمنی کی بات کی جائے، تو یہ ممالک اپنی GDP کا بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اور تمام بچوں کو مفت، لازمی اور معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ وہاں نہ صرف ہر بچے کو تعلیم تک مساوی رسائی حاصل ہے بلکہ خصوصی بچوں، اقلیتی طبقات اور کمزور طبقوں کو بھی یکساں مواقع دیے جاتے ہیں۔
ان ممالک کے تعلیمی نظام طلبہ پر مبنی اور جدید تدریسی طریقوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جہاں تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیت، اور عملی مہارتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اساتذہ کی باقاعدہ تربیت، جدید نصاب، اور ٹیکنالوجی کا استعمال ان کے نظام کو مثر اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔امتحانی نظام بھی وہاں پاکستان کے برعکس ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ صرف امتحانات سے نہیں بلکہ عملی کام، منصوبہ سازی، اور مجموعی سیکھنے کے عمل سے لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں البتہ یادداشت پر مبنی امتحانات کا رجحان غالب ہے، جو طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے۔
پاکستانی حکومت نے حالیہ سال میں تعلیم کے فروغ کے لیے کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے ہیں۔ 2024-2025 کے بجٹ میں وفاقی وزارت تعلیم کے لیے 25.75 ارب روپے مختص کیے گئے، جو پچھلے سال کی نسبت 203 فیصد زیادہ ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے بھی 66.31 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات قابلِ تعریف ہیں، مگر ان کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں کمی، دیہی علاقوں میں اسکولوں کی دستیابی، اساتذہ کی بھرتی اور تربیت، نصاب میں جدت، اور بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ جیسے مسائل پر بھرپور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی کمی اور سماجی رکاوٹیں بھی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ نظام نہ صرف ہمارے بچوں کا مستقبل بلکہ قومی ترقی کو بھی شدید متاثر کر سکتا ہے۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب تعلیمی ماڈلز سے سیکھ کر اپنے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ نصاب میں تبدیلی، اساتذہ کی معیاری تربیت، بجٹ میں اضافہ اور ہر علاقے میں تعلیم کی مساوی فراہمی وہ اہم ستون ہیں جن پر ایک روشن پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ تعلیم صرف فرد کی نہیں، قوم کی بقا ہے۔
کالم
پاکستان کا نظامِ تعلیم اور ترقی یافتہ دنیا کا عکس
- by web desk
- اپریل 14, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 44 Views
- 3 دن ago
