افغان فورسز کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ نے پاک افغان سرحدی محاذ گرم کر دیا،گزشتہ رات دیر تک گولہ بارود کی گھن گرج سنائی دیتی رہی۔ افغان فورسز کی شر انگیزی کا پاک فوج نے بھر پور جواب دیا،بھاری جانی نقصان کے بعد طالبان چیک پوسٹیں اور لاشیں چھوڑ کر فرار ہوگئے، پاک فوج نے افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں داعش اور خوارج کے ٹھکانوں پرحملے کئے ہیں ، جوابی حملوں میں فضائیہ اور توپخانے کا بھی استعمال کیا گیا ۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال، اور بارام چاہ (بلوچستان)کے مقامات پر شدیدفائرنگ کی،اس فائرنگ کا مقصد خوارجی جتھوںکو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد صورتحال اب بھی کشیدہ ہے۔افغان وزارت دفاع کا نام نہاد دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد کارروائی ختم کی گئی ہیجبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ افغانستان آگ اور خون سے کھیل رہا ہے۔ ان کے بقول افغان فورسز کی شہری آبادی پر فائرنگ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بھی انڈیا کی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔پاک افغان حکام فورسز کے درمیان فائرنگ اور کشیدہ صورتحال کے پیش نظر طورخم بارڈر دونوں اطراف سے تجارتی سرگرمیوں اور مسافروں کی پیدل آمد ورفت کے لیے بند کر دیا گیا گیا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی کسی دور میں کم نہیں ہوئی،حالانکہ دیکھا جائے تو طالبان خو دوبارہ اقتدار کی دہلیز تک لانے میں اہم کردار اد اکیا،مگر بدقسمتی سے افغان طالبان قیادت نے پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے معاملے مناسب تعاون نہیں کیا۔ افغان طالبان ایک طرف دہشت گروں کی پشت پناہی سے بارہا انکار کیا
جبکہ دوسری طرف اپنی سرزمین پر مختلف دہشت گردگروہوں کی میزبانی بھی جاری رکھی۔ ماضی میں پاکستان نے اس پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے افغانستان کے اندر کئی اہداف پر حملے کیے ہیں۔ بلاشبہ یہ صورت حال پیچیدہ ہے۔ پاکستان کو کارروائی کرنا پڑتی ہے کیونکہ افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کی پاکستان کے اندر کارروائیوں کا سلسلہ نہیں رک پا ر رہا۔کابل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ موجودہ صورت حال جس میں دہشت گردوں کا افغان سرزمین پر پناہ لینا مگر طالبان حکومت کا اس سے مسلسل انکار، قابل بھروسہ نہیں ہے۔ یہ ایک قابلِ غور حقیقت ہے کہ افغانستان نے پاکستان پر حملہ عین اس وقت کیا ہے جب افغان وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر موجود ہیں اور وہاں پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیوں کی شکل دی جا رہی ہے۔ ایسے نازک موقع پر، جب پاکستان کے ازلی حریف ملک کا دورہ جاری ہے، اس طرح کا حملہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک مجرمانہ اشارہ ہے جو پاکستانی عوام کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے۔ یہ حملہ اس پیغام کا حصہ ہے جو پاکستان کے دشمن دینا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس صورتِ حال کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنی یکجہتی اور دفاعی عزم کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ادھر دفترِ خارجہ نے ہفتے کی شب افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے دوران دیے گئے بیانات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانیکی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے سے افغان حکام اپنے علاقائی امن کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ 9اکتوبر کی شب کابل میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں امیر خان متقی نے اس واقعے اور اس میں مبینہ طور پر پاکستان کے کردار کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں، انہیں وہ خود حل کرے۔ انہوں نے ایک بار پھر جھوٹا دعویٰ کیا کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد تنظیم یا گروہ باقی نہیں رہا، جبکہوزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان نے بارہا افغانستان میں موجود فتن الخوارج اور فتن الہند جیسے دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات شیئر کی ہیں، جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اور انہیں وہاں موجود عناصر کی حمایت حاصل ہے۔افغانستان بھارت مشترکہ اعلامیے پر تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان نے اسلامی بھائی چارے اور اچھے پڑوسی کے جذبے کے تحت گزشتہ چار دہائیوں سے تقریبا 40 لاکھ افغان شہریوں کی کھلے دل کے ساتھ میزبانی کی ہے۔ اسلامی بھائی چارے اور ہمسائیگی کے جذبے کے تحت پاکستان، افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرتا رہے گا۔پاکستان ایک پرامن، مستحکم، علاقائی طور پر منسلک اور خوشحال افغانستان دیکھنے کا خواہاں ہے، اسی لیے پاکستان نے افغانستان کو ہر ممکن تجارتی، اقتصادی اور رابطہ سہولتیں فراہم کیں، یہ اقدامات دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور معاشی و سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ہیں۔ تاہم دفتر خارجہ نے زور دیا کہ حکومت پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کی حفاظت اور سلامتی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔
قتل عام کے بعد،غزہ کے لوگوں کی واپسی
جب غزہ کے لوگ اس ملبے کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں ان کے گھر کبھی کھڑے تھے،وہاں راحت کا احساس ہے۔اسرائیل کی طرف سے نسل کشی کے دو سال بعد،غزہ کے باشندے شکر گزار ہیں کہ قتل عام ختم ہو گیا ہے حالانکہ کسی کا اندازہ کب تک ہے لیکن ان کی مہلت کے درمیان غم بھی ہے اور تلخی بھی۔کچھ نے اپنے پورے خاندان کو کھو دیا ہے،جب کہ دوسرے بچے،بہن بھائی، والدین، شریک حیات یا کسی دوست کے غم میں ہیں جو صیہونی حکومت کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔جان بوجھ کر قحط کے اثرات سے نمٹنے کیلئے طبی ماہرین کے ساتھ ساتھ،زندہ بچ جانے والوں کو اپنے ذہنی زخموں سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت ہوگی۔امن حاصل کرنے کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے نکلنے والے خود مبارکبادی بیانات کے علاوہ،پہلی ترجیح آبادی کی انسانی ترقی ہونی چاہیے۔جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے کے ترجمان نے کہا،غزہ کی نسل کشی کو کبھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔جس طرح مغرب اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہولوکاسٹ جس کا ارتکاب اس کے اپنے کسی فرد نے کیا ہے کو یاد رکھا جائے،اسی طرح فلسطینی ہولوکاسٹ کی یاد کو بھی زندہ رکھا جانا چاہیے۔ 67,000 سے زیادہ لوگوں کو تل ابیب نے سادہ نظروں میں قتل کر دیا ہے،جب کہ بہت سی لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہو سکتی ہیں۔ان جرائم کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے اور قالین کے نیچے دھکیلنا چاہئے۔تل ابیب اور اس سے باہر مقبوضہ غزہ کی آبادی کے قتل اور فاقہ کشی کے ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔اسرائیل کے اپنے لفظ کو بار بار توڑنے کے مشکوک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، جنگ بندی کب تک جاری رہے گی کے بارے میں بھی اہم سوالات ہیں۔مزید مذموم مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے بعد صیہونی حکومت اپنی نسل کشی کی مہم دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔کوئی صرف امید کر سکتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، اور یہ کہ اس منصوبے کے معمار،یعنی امریکہ اور عرب ریاستیں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل اپنی بات پر قائم رہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدے کے آخری مراحل کی حیثیت بھی واضح نہیں ہے،خاص طور پر حماس کے ہتھیاروں کے حوالے سے،اور یہ سوال کہ غزہ پر کون حکومت کرے گا۔حماس،اسلامی جہاد اور پی ایف ایل پی سمیت کئی فلسطینی گروپوں نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی غیر ملکی سرپرستی کو مسترد کرتے ہیں۔کسی نوآبادیاتی ادارے کو پٹی کی نگرانی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔فلسطینیوں کو ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔جنگ بندی کے بعد، لاکھوں نہیں تو لاکھوں لوگوں کو تسلیم نہ کرنا ناانصافی ہو گی جنہوں نے مغربی شہروں میں مارچ کرتے ہوئے فلسطین میں انصاف کا مطالبہ کیا،یہاں تک کہ ان کی کئی حکومتیں نسل کشی میں شریک رہیں۔لیکن اس میں کوئی وہم نہ رہے،طویل مدتی امن صرف مقبوضہ فلسطینی سرزمین کی آزادی اور ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی آسکتا ہے۔
اداریہ
کالم
پاک افغان بارڈ،افغان حکام کی شرانگیزی کا شکار
- by web desk
- اکتوبر 13, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 38 Views
- 2 دن ago
