اداریہ کالم

پاک ایران اقتصادی تعاون وقت کی ضرورت

idaria

پاک فوج کے سپہ سالار جنہوں نے اپنادورہ ایران مکمل کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں، اپنے اس دوروزہ دورے کے دوران انہوںنے وہاں کی اعلیٰ ،سول وعسکری قیادت کے ساتھ مفصل ملاقاتیںکیں اور خطے میں سیکیورٹی کے حالات کی بہتری کے لئے نہ صر ف تجاویز پیش کیں بلکہ ان پر عملی اقدامات اٹھانے پربھی زوردیا۔اپنے دورہ کے دوران انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ومعاشی تعاون بڑھانے پربھی زوردیا۔میزبان ملک کے صدر نے سپہ سالار کو اس امرکی یقین دہانی کرائی کہ ایران اپنے ہمسایہ برادرممالک کے ساتھ نہ صرف معاشی تعاون میں بہتری لانے کاخواہشمند ہے بلکہ آپس میں دفاعی تعاون بڑھانے پرکابھی خواہشمند ہے۔ جنرل عاصم منیرنے ایرانی قیادت کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کی سلامتی میں ایران کی سلامتی مضمر ہے اور پاکستان کے استحکام میں ایرانی استحکام پوشیدہ ہے اسی لئے دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت کا فروغ ازحدضروری ہے کیونکہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے دہشتگردی سمیت دیگر مسائل ختم ہوںگے اس پر ایرانی قیادت نے اتفاق رائے کااظہارکیا اور اس بات کااعتراف کیا کہ ایران اورپاکستان یکجان اوردوقالب ہیں اوریہ کسی صورت ممکن نہیں کہ ایران اپنی سرزمین کسی تیسرے ملک کو پاکستان کے خلاف استعمال کی جانے والی کارروائیوں میںاستعمال کرنے کی اجازت دے۔ ایران اور پاکستان نے اتفاق کیا ہے کہ جغرافیائی سالمیت کے لیے مل کر کام کریں گے۔ایرانی میڈیا کے مطابق اتفاق رائے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اورپاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کے مابین تہران میں ہونے والی ملاقات میں طے پایا ۔ ملاقات میں سرحدوں کے تحفظ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جغرافیائی سالمیت کے لیے مل کر کام کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔اس موقع پر ایرانی صدر نے پڑوسی، ہم خیال اور مسلم ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توسیع کو ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ باہمی معاہدوں پر عمل در آمد کی رفتار میں تیزی سے ایران و پاکستان کے درمیان معاشی و تجارتی تعاون میں بہتری پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میںدونوں پڑوسیوں کے سیاسی تعلقات بھی مضبوط ہوں گے۔ رئیسی نے اسی طرح علاقائی ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کیا اور موجودہ گنجائشوں اور باہمی لین دین میں اضافے کے ذریعے باہمی تعاون میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔ ملاقات میں پاک فوج کے سربراہ سید عاصم منیر نے بھی پڑوسیوں خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توسیع کی ایران کی پالیسیوں کو سراہا اور اسے عالم اسلام کےلئے خاص قرار دیا۔جنرل عاصم منیر نے ایران اور پاکستان کی طولانی مشترکہ سرحدوں اور سرحدی لین دین کی گنجائش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی ومعاشی تعاون سے سکیورٹی کے حالات میں بہتری آئے گی۔ ہم سکیورٹی کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اس سے قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان سے بھی ملاقات کی تھی۔وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان اور جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں باہمی دلچسپی اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
افغان ترجمان کابیان
پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغانستان سے مسلسل دراندازی کاسلسلہ جاری ہے اور پاکستان کے اندرسرگرم عمل دہشتگردگروہوں کی سرپرستی کا سلسلہ افغانستان میں جاملتاہے جہاں پر انہیں دہشتگردی کی تربیت دینے کے لئے محفوظ ترین تربیتی کیمپ میسرہیں ۔دہشتگردی کایہ سلسلہ کوئی نیانہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی افغان حکومت کا جھکاﺅبھارت کی جانب رہااورکابل کے اندربیٹھ کرپاکستان مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دورحکومت میں افغان حکومت نے پشتونستان کاشوشہ چھوڑااور کابل میں ریڈیوپشتونستان کے نام سے ایک پروپیگنڈامشن شروع کیاگیاجہاں سے چوبیس گھنٹے پاکستان کے خلاف زہریلاپروپیگنڈانشرکیاجاتاتھااوراس سارے عمل کے لئے بھارت فنڈزمہیا کرتا اس کے ساتھ ساتھ اسی دورمیں پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی قونصل خانے قائم کئے گئے جودرصل دہشتگردوںکی آماجگاہ تھے ۔سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد جب وہاں کے عوام نے پاکستان کی جانب ہجرت کی تو حکومت نے اپنی سرحدیں لوٹے پھوٹے افغانیوں کے لئے کھول دیں اوردس سال سے زائد عرصہ تک لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی جس کے باعث پاکستانی معیشت دن بدن گرداب میں آتی چلی گئی مگر پاکستان نے کسی ایک افغانی کوملک بدرنہیں کیااس کے ساتھ ساتھ پورے دس سال تک سوویت افواج کے خلا ف لڑنے والے افغان مجاہدین کے گروپوں کی اخلاقی اورسفارتی مدد کی جس کے نتیجے میں سووویت یونین کویہاں سے رسواہوکرنکلناپڑا جوبالآخر ٹوٹ کررہ گیا مگر افغان حکومت نے اس کااعتراف نہیں کیا،الٹا غیرپاکستا ن دشمن قوتوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کئے رکھی اور دہشتگردوںکو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔افغانستان سے آنے والے دہشتگردوں نے پشاورمیں اے پی ایس سکول کو اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کانشانہ بنایا اورمعصوم بچوں اوراساتذہ کوشہید کرتے ہوئے اسرائیلی بربریت کومات کردیا۔ان دہشتگردگروہوں نے ان دنوںبلوچستان کواپنامحوربنارکھاہے ۔ پاکستان نے پاک افغان کومکمل طورپربارڑلگاکربندکردیاہے جس کاگلہ بھی افغان حکومت کو ہے اسی تناظرمیں چندروزبیشتروفاقی وزیردفاع نے افغانستان کے حوالے سے ایک بیان دیا جس کے جواب میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، افغان عبوری حکومت نے دوحہ معاہدے پر پاکستان سے نہیں بلکہ امریکا کے ساتھ دستخط کیے ہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے دہشتگردوں کی جانب سے سرحد پار انتہاپسندی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال سے متعلق بیان پر رد عمل دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے امریکا کے ساتھ دوحہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور پاکستان ایک برادر اور مسلم ملک ہے اور عبوری حکومت نے پڑوسی ملک کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر پاکستانی حکومت ان کے ساتھ ثبوت شیئر کرتی ہے تو عبوری حکومت اقدامات کرے گی۔
پاک چین اقتصادی بہتری کی کوششیں
موجودہ حکومت عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات کومزیدبہتربنانے کے عمل پرپوری طرح کاربند ہے اوراس کی خواہش ہے کہ سابقہ حکومت میںجوغلط فہمیاں پیدا ہوئی تھیں ان کو ختم کرتے ہوئے چین کے سرمایہ کاروں کوپاکستان کے اندر سرمایہ کاری کرنے پرراغب کیاجائے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں بھی اضافہ ہواوراندرون ملک پھیلنے والی بیروزگاری کابھی خاتمہ کیاجاسکے۔اسی حوالے سے چین کے حالیہ دورہ کے بعد ایک انٹرویو میںوفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے سکیورٹی کے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں،پانی کو محفوظ کرنے، آبپاشی کی نئی ٹیکنالوجیز تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ہم 9 خصوصی اقتصادی زونز پر کام کر رہے ہیں۔ رشکئی خصوصی اقتصادی زون کا افتتاح اس ماہ کے آخر میں کیا جائے گا۔ اسی طرح سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں دیگر اقتصادی زونز بھی ترقی کے مراحل میں ہیں۔ پاکستان کو سستی لیبر فورس کا بڑا فائدہ ہے۔ چین میں، بہت سی صنعتیں لاگت کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے پیداواری لاگت کا سامنا کر رہی ہیں اور اب وہ ویتنام، کمبوڈیا اور لا ﺅ س جا رہی ہیں۔ خصوصی اقتصادی زونز ( ایس ای زیڈز) چینی سرمایہ کاروں کو ان مراعات سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کریں گے جو پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کےلئے پیش کرتا ہے۔ پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ بہت اچھا ہے اور پھر اس کے پاس چین پاکستان اقتصادی راہداری کا فریم ورک ہے۔ اس لئے چینی کاروباری اداروں کےلئے پاکستان میں ان اقتصادی زونز میں منتقل ہونا بہت ہی پرکشش ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے