کالم

پاک ایران معاشی تعلقات اور درپیش چیلنجز

پاک ایران تعلقات کے روشن مستقبل کا امکان یوں بھی ہے کہ دونوں مسلم ممالک کو اسلامی ہی نہیں اقوام عالم میں بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے ، پاکستان کے ایٹمی قوت کا ہونا نہ صرف ایران کے لیے باعث اطمینان ہے بلکہ پاکستان اور ایران اس پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ مسلم دنیا کے مسائل اسی صورت حل ہوسکتے ہیں جب پچاس سے زائد مسلم ممالک میں باہمی اتفاق واتحاد کو فروغ دیا جائے، تہران اور اسلام آباد تسلسل سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ مسلم دنیا میں پائی جانے والی کشدیگی کا فائدہ صرف اور اسلام دشمن قوتوں کو ہورہا ہے چنانچہ جس قدر ممکن ہو ایک خدا، ایک رسول اور ایک قرآن کو ماننے والے اپنے اندرونی تنازعات پر قابو پائیں ، ایرانی قیادت کہہ چکی کہ بعض ممالک خاموشی کے ساتھ اس منصوبہ پر عمل پیرا ہیں کہ مسلم معاشروں میں شعیہ اور سنی کی تفریق پیدا کی جائے ، مسلم مخاصمت کی پالیسی پر عمل پیرا ممالک کا ماننا ہے کہ تقسیم اور کرو اور حکومت کرو کا فارمولہ کامیابی کے ساتھ استعمال کرکے مسلم دنیا کو باہمی دست وگریبان کرنے کی پالیسی جاری رکھی جاسکتی ہے ،پاکستان اورایران نے اس کا توڈ کچھ یوں نکالا ہے کہ مسلمانوں کو ایک ہی لڑی میں پروانے کی کوشش کی، رواں سال ایران کی جانب سے پاکستان کے خلاف کاروائی اور پھر اسلام آباد کے جواب کو خارجہ امور کےماہرین علاقائی اور عالمی قوتوں میں جاری کشیدگی کے پس منظر میں دیکھتے ہیں مثلا اگر اس پر یقین کرلیا جائے کہ پاکستان میں ایرانی مفادات کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے تو اس میں بلاشبہ ایسے عناصر ملوث ہیں جو دونوں ملکوں کے روشن اور محفوظ مستقبل سے خائف ہیں، اس سچائی کا اعتراف کرنا بھی کسی طور پر غلط نہیں کہ مملکت خداداد کی سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ عسکری حکام بھی پاک ایران تعلقات کی اہمیت اور وسعت سے باخوبی آگاہ ہیں یہی وجہ ہے کہ خبیر تا کراچی متعدد بار ایسے عناصر کے خلاف بھرپور کاروائی کی گی جو دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں ، زیادہ پرانی بات نہیں جب سعودی عرب اور ایران کے باہمی تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی یوں آئی کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ، اس ضمن میں یہ کسی باخبر پاکستانی کے لیے یہ حیران کن نہیں کہ اسلام آباد طویل عرصہ سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر کوشاں رہا کہ تہران اور ریاض قریب آجائیں، دراصل پاکستان کی اس پالیسی کی بنیادی وجہ یہ حقیقت رہی کہ اسلام آباد جانتا تھا کہ سعودی عرب ایران کشیدیگی کا نقصان جہاں دونوں ملکوں کو ہورہا ہے وہی اس کا خمیازہ مسلم دنیا بھی بھگت رہی ہے، پاکستان کا معاملہ یہ ہے ، اس کا محل وقوع بذات خود اس حقیقت پر مہرتصدیق ثبت کرتا ہے کہ پڑوسی ملکوں سے دیرینہ ، دوستانہ اور خوشگوار تعلقات ہونے چاہیں ، یہی سبب ہے کہ پاکستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایران ،بھارت ، چین اور افغانستان سے دوستانہ راوبط کو فروغ ملے ، مذکورہ ممالک میں سے بھارت کا معاملہ مختلف اور پیچیدہ یوں ہے کہ مسئلہ کشمیر اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے ، پاکستان اور بھارت میں جہاں 4باضابطہ جنگیں ہوچکیں وہی سرحدوں پرکشیدگی کی اپنی الگ تاریخ ہے ،پاکستان تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے کہ دو ایٹمی قوت کی حامل ریاستوں میں تنازعہ کشمیر کسی بڑے تصادم کا سبب بن سکتا ہے چنانچہ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے ، اب اس تلخ سچائی کا ذکر کرنا بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ مغربی ممالک ہی نہیں مسلم دنیا کی اکثریت بھی اپنے کشمیری بھائیوں کو نظر انداز کرنے کی مرتکب ہوچکیں ، اس سچائی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام عالم جہاں مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرنے کے جرم میں شریک ہیں وہی مسئلہ کشمیر بھی انصاف کے عالمی ایوانوں میں بدستور حل طلب ہے ،پاکستان ایران سمیت اپنے ہمسایہ ممالک کی "مجبوریوں” سے باخوبی آگاہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے آج تک اپنے دوست ممالک پر فیصلہ کن دباو ڈالنے سے احتراز برتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی کھل کر حمایت کریں، ایرانی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان میں جس پہلو کو نمایاں اہمیت دی گی وہ پاک ایران معاشی تعلقات ہیں ، اس پس منظر میں گیس پائپ لائن منصوبے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی دیرینہ خواہش ہے کہ دونوں ملکوں میں سالوں سے زیر التواپاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جلدازجلد پایہ تکمیل کو پہنچے ، اب اس عظیم منصوبے کو مکمل کرنے میں بڑی رکاوٹ بذات خود امریکہ ہے، واشنگٹن کءمرتبہ کہہ چکا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان سمیت کوئی ملک ایران پر عائد پابندیوں کے پس منظر میں تہران سے روابط بڑھائے ، مذکورہ امریکی پالیسی کا تازہ ثبوت یہ ملا کہ ایران صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے فورا بعد ہی امریکہ نے ایک بارپھر ان ممالک کو خبردار کردیا جو ایران کے تجارت بڑھانےکی خواہش رکھتے ہیں،امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل سے جب پاک ایران مفاہمت کی یاداشتوں بارے سوال کیا گیا گو ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ تجارتی روابط بنانے والے ممکنہ پابندیوں سے آگاہ رہیں،” مسائل اپنی جگہ مگر پاکستان تسلسل کے ساتھ اپنے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے