کالم

پتن۔۔۔!

پانی ایک نہاےت اہم مرکب ہے،اسکا کیمیائی فارمولا H2Oہے،اس کا مطلب ہے کہ اس کے ہر مالیکیول میں دو ہائیڈرجن اور ایک آکسیجن ہوتا ہے۔پانی اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیر حیات محال ہے،انسانی جسم کا 60 فی صد سے زیادہ حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، ہڈیاں 31فی صد، جلد کا64 فی صد، پھیپھڑوںکا83 فیصد، دل اور دماغ تقریباً75 فی صد پانی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ماضی میںزیادہ تر قریہ اور شہر آبی گذر گاہوں، ندی نالوں اور دریاﺅںکے کناروں پر آباد تھے تا کہ پانی کے حصول میں آسانی ہو،عصر حاضر کی طرح ریل، موٹر ویز اور سڑکیں نہیں تھیں تو لوگ آمد و رفت اور تجارت کےلئے زیادہ تر دریاﺅں کا استعمال کرتے تھے۔
اب بھی متعدد علاقہ جات اور ممالک میں لوگ آبی سفر کو ترجیح دیتے ہیں،دریاﺅں کے آس پاس آبادیاں جہاںپل نہیں ہیں،وہاں بھی لوگ کشتیوں کے ذریعے پار جاتے ہیں، دریا ئے سندھ کے کنارے قدیم بستی کالاباغ عالمی شہرت کی حامل ہے۔کالاباغ میانوالی سے تقریباً پچاس کلومیٹر جبکہ سی پیک سے تقریباًپانچ کلومیٹرکے فاصلے پر ہے۔ مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کا تعلق اسی شہر سے تھا ،وہ بہت اچھے منتظم، سخت گیر اور اصول پسند تھے۔ نواب کا بوہڑ بنگلہ، پیپل بنگلہ، قلعہ نواب صاحب تاریخی، قابل دید اور قابل تعریف ہیں۔
نواب فیملی کے افراد مہمان نواز اور واضح دارہیں۔کالاباغ میں صحابہ کی قبریںہیں، پہاڑ کے دامن میں چُپ سائیںکا مزار ہے، دریا کے کنارے چند سرکاری اور نجی گیسٹ ہاﺅسز ہیں،نمک کی کانیںہیں۔کالاباغ ہزاروں سال قدیم قصبہ ہے اور یہ بنیادی طور پر ایک تجارتی مرکز ہے، زیادہ تر لوگ شعبہ تجارت سے وابستہ ہیں، بزنس مائنڈ کے لوگ لڑائی جھگڑوں سے پرہیز کرتے ہیں، اس لیے یہاں کے مکین پرامن ، ملنسار، مہمان نواز اور قدر دان ہیں، کالاباغ کے قدیم محلہ جات میں تنگ و تاریک گلیاں ہیں۔کالاباغ کے ایک طرف بلند و بالا سلاگر پہاڑ ہے اور دوسری طرف آب و تاب سے بہتا ہوا دریائے سندھ ہے۔دریائے سندھ لداخ سے شروع ہوتا ہے، پہاڑوں کے بیچ و بیچ بہتا ہوا کالاباغ کے مقام پر میدانی علاقے میں داخل ہوجاتا ہے۔دریا کی گزرگاہ، گھاٹ اور کشتیوں کی ٹھہرنے کی جگہ کو پتن کہتے ہیں۔
پتن پر خواتین کپڑے اور برتن دھوتی ہیں، ساتھ ہی علاقے اور گھر گھر کی خبریں بھی آپس میں شیئر کرتی ہیں اور آپ یوں سمجھیں کہ وہاں خبر رساں ایجنسیاں اکٹھی ہیں، پتن سے علاقے کی ہر خبر مل جاتی ہے۔ خواتین آپس میں ہر بات کو لازمی شیئر کرتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ کسی اور کونہ بتائیں، جس کو بات بتائی ہوتی ہے، وہ یہی بات اگلی خاتون کے ساتھ شیئر کرتی ہے اوراس کو بھی یہ ہدایت لازمی کرتی ہے کہ کسی کو بتانا نہیں، اس طرح وہ بات یا خبر پورے علاقے میںپھیل جاتی ہے۔ پتن کا ماحول بھی دلفریب ہوتا ہے ، پتن کا منظر طلسماتی دنیا میں لے جاتا ہے۔ نہانے کےلئے مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ پتن ہوتے ہیں۔
کالاباغ کا اُتلا پتن بہت معروف ہے، مقامی زبان میں اُتلاکا معانی اُوپرہے یعنی اُتلاپتن کا مطلب اُوپر کا پتن ہے۔اُتلاپتن میں تین چار کشتیاں کھڑی تھیں،” ناخدا”سواریوں کے انتظار میں بیٹھے تھے اور آپس میں گپ شپ میں مصروف تھے، عموماًان کی گفتگو دریا اور سواریوں کے بارے میں ہوتی ہے،وہ خیالی اور بعض سچی کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ملاح نسل در نسل کشتی بانی کرتے ہیں ،وہ دریا کے چپے چپے سے واقف ہوتے ہیں۔پتن کا باقاعدہ ٹھیکہ ہوتا ہے، ٹھیکیدار اِن سے ٹیکس لیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر چیز پر ٹیکس ہے،اس طرح ٹیکس دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔
ٹیکس سے عوام کو فائدہ پہنچنا چاہیے لیکن اکثریت پینے کے صاف پانی،تعلیم،صحت، تحفظ ، روزگارسمیت تمام سہولیات سے محروم ہیں،البتہ شہری پانی ، تعلیم، صحت ، حفاظت وغیرہ کے خود ذمہ دار ہیں۔خاکسار ملک کی گلی کوچے، در در، چپہ چپہ ،قریہ قریہ، شہر شہر پھرتا رہتا ہے، ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہے اورلوگوں کی اکثریت انتہائی شریف ہے، ہر بے انصافی، ہر ستم اور ہر جبر کونصیب سمجھ کر صبر سے برداشت کرلیتے ہیں،ہر حکومت کے آنے پر مٹھائی تقسیم کرتے ہیں اور ان کے جانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔یہ ناخدا بھی کبھی کبھار سیاست پر بات کرلیتے ہیں لیکن زیادہ تر سیاسی گفتگو سے پرہیزکرتے ہیں۔ ان کے پاس کشتی میں چائے بنانے کا سامان بھی موجود ہوتا ہے، ہم نے مکھڈ شریف سے کالاباغ تک کشتی میں سفر کیا،اس سفر کے دوران ملاح نے بہترین چائے بنائی،ہم سب چائے سے لطف اندوز ہوئے۔کالاباغ اور مکھڈ شریف کے درمیان بہت خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں،دریا کے کنارے آباد دیہات ہیں، بعض دیہاتوں کے درمیان میںسے دریا بہتا ہے۔
پتن پر لوگوں کی چہل پہل بھی پرکشش ہوتی ہے، لوگوں کے پاس اپنی اپنی کشتیاں ہیںاور جن کے پاس کشتیاں نہیں ہیں،وہ مرد و حضرات ٹائروں کے ٹیوب پر دریا پار کرتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ دریا کے کنارے آباد شہر اور دیہاتوں کے باسی سب مردو خواتین کو تیرنا آتا ہے،سب لوگ موسم گرما میں متعدد بار دریا میں نہاتے اور تیرتے ہیں،ان پہاڑوں کے درمیان دریا ئے سندھ کافی گہرا ہے۔یہاں کے لوگ موسم سرما میں مچھلی پکڑتے ہیں اور دریا کی لذیزمچھلی کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگ پانی پلانے کے لئے پالتوجانوروں کوپتن پر لاتے ہیں،اس علاقے میں زیادہ تر بھیڑ،بکریاں،گائے، بیل اور اونٹ وغیرہ پالے جاتے ہیں،کالاباغ ،مکھڈ شریف اور اٹک تک دریا سندھ کے اطراف میں چراگاہیں ہیں،ان پر تفصیل پھرکبھی شیئر کریں گے۔پتن پر عموماً بوہڑ یا کوئی اور درخت ہوتا ہے ،جس کے سائے میں لوگ بیٹھتے ہیں، گرمیوں کی دوپہر لوگ یہیں پر گزارتے ہیں، گپ شپ اور ہنسی مذاق کرتے ہیں، نہاتے ہیں ،دریا میں چلتی کشتیاں دیکھتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں۔ پتن پر طلسماتی، روحانی اور جذباتی ماحول ہوتا ہے،ان سب جذبات کو محسوس کرنے کےلئے آپ کے اندر کے ماحول میں بھی محبت، احساس اور خوبصورتی ہونی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے