کالم

پرویزالٰہی پھرکامیاب

a r tariq

وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ہٹا مشن، مسلم لیگ ن کے بلنڈر پر بلنڈر کہ پہلے پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش،بعد ازاں پھر گورنربلیغ الرحمان کی جانب سے پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا/معاملات بمطابق اسکرپٹ نہ ہو پانے پر پھر انہیں ڈی نوٹیفائی کرنا،وزارت اعلیٰ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جانا اور جاتے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کا گورنر ڈی نوٹیفائی فیصلے کو عدالت میں تقویت دینے کےلئے خود سے ہی پنجاب اسمبلی میں پرویز الٰہی کے خلاف پیش تحریک عدم اعتماد کو انتہائی عجلت میں واپس لینا نے کہیں کا نہیں چھوڑا،تحریک عدم اعتماد سے ویسے ہی گئے، گورنر فیصلہ عدالت سے معطل ہوگیا اور گورنر ڈی نوٹیفائی فیصلے کے نتیجے میں فارغ پرویز الٰہی پھر سے بحکم عدلیہ وزارت اعلیٰ کی سیٹ پر براجمان رہ گئے۔مسلم لیگ ن اچانک تحریک عدم اعتماد سے ہاتھ کھینچ کر بھی کچھ نہ پا سکی اور گورنرپنجاب کا وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کاغیر سنجیدہ،غیر آئینی،انوکھا احکامات پر مبنی اقدام بھی عدالتی چوراہے پر دم بخود ہوا، چکرائے ہوئے بڑی بری طرح دھڑم ہوگیا کہ عدالت میں زیر سماعت رہ کر بھی سماعت کے حقیقی قابل جیسا نہ رہا،چل ضرور رہا ہے مگر حالت انتہائی خراب ہے۔کسی بھی وقت حالت غیر ہوئے یا قابل جوش بن کر اپنی مرن صورتحال میں چلا جائے گا۔مسلم لیگ ن کا اس سارے عمل میں مورال گرا ہے بلند نہیں ہوا ہے۔کچھ باشعور ن لیگی سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے ن لیگ کو سبکی ہوئی ہے اور پرویزالٰہی گراف اوپر چلا گیا ہے اتنا کہ پرویزالٰہی کی ساری پریشانیاں ، الجھنیں سلجھا گیا ہے اور انہیں اس مقام پر لے آیا ہے کہ اب انہیں حقیقی طور پر کوئی پریشانی نہیں رہی۔پرویز الٰہی سے جو اکھڑے تھے وہ بھی ساتھ جڑ گئے ہیں اور معاملہ اس حد تک آسان نظر آیا کہ آزاد امیدوار بھی پرویز الٰہی کے ساتھ نظر آئے ہیں ۔پرویز الٰہی کے ساتھ ارکان کی تعداد پوری ہوگئی۔پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا، اب صرف غالب دل لبھانے کے لیے خیال اچھا ہے والی بات ہے۔بہت سارے مسلم لیگی ارکان اسمبلی سمجھتے ہیں کہ پرویز الٰہی کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے حالیہ دو فیصلے انتہائی احمقانہ،غیر دانشمندانہ فیصلے ہیں جس نے مسلم لیگ ن کے پلے کچھ نہیں چھوڑا ہے ، مسلم لیگ ن کو ایسے فیصلے ہرگز نہیں لینے چاہیے تھے۔پرویز الٰہی کے مقابلے میں پی ڈی ایم شکست یقینی ہے۔راقم الحروف کے مطابق مسلم لیگ ن کا پی ٹی آئی،ق لیگ کے مقابلے میں حال یہ ہے کہ میری حسرتوں کا جنازہ اٹھا کے تجھے کیا ملا کہ جنازہ تیار ہے اور پڑھنے اور تدفین کےلئے لوگ نہیں مل رہے،پی ڈی ایم کی قسمت میں ہار ہار اور ہار ہے اب پرویز الٰہی کہیں بھی پھنستا ہوا نظر نہیں آتا۔چند سینئر تجزیہ کار،اینکرز پرسن و پی ڈی ایم ٹولہ سمجھتا ہے کہ عمران پرویزالٰہی اختلافات ، ساتھ ساتھ نظر نہیں آتے مگر میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جیسے بہت گہری پلاننگ سے دونوں مل کر پی ڈی ایم کو چکرائے اور گمائے ہوئے اور عمران پرویز الٰہی اختلاف باتیں کسی دشمن کی اڑائی ہوئی ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ عمران پرویز الٰہی ساتھ ساتھ،شادباد و کامران ہیں۔باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر آپس میں دوری ذرا سی بھی نہیں ہے اور اب تو رہی ہی نہیں۔یاد رہے کہ پرویز الٰہی کہیں بھی نہیں جا رہے،ہر محاذ پر کامیاب و کامران ہیں ۔ سیاسی و عدالتی معاملات جیسے بھی آڑے آئیں ، ان سے بتوفیق اللہ نمپٹ ہی لیں گے ۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ والوں میں سے کوئی بھی نہ تو عمران خان کو اور نہ ہی پرویز الٰہی کو چھوڑ رہا ، سبھی ساتھ ساتھ اور پاس پاس ہیں۔یہ نظر آتی دوریاں تو بس دوسروں کو نظر آتا اندھیرا ہے ۔ حقیقت میں پرویز الٰہی کےلئے جو جگمگاتی روشنی ہے ایک ایسی روشنی ہے کہ جس میں ”ایک زرداری سب پر بھاری”بری طرح گھائل اور تین مرتبہ کا وزیراعظم نواز شریف پریشان وہ خوفزدہ، شجاعت و فضل الرحمان جیسے حیران و پریشان اور باقی سبھی بھی حال و بے حال، اور ان سب کی اس حالت کا ذمہ دار عمران خان ہے جو تخت پر بھی ان کےلئے پریشانی بنا ہوا تھا اور اب دھڑن تختہ ہوئے بھی ان کےلئے خطرہ ہے ۔ اطلاع یہ ہے کہ چالیس پچاس مسلم لیگ ن کے ارکان پنجاب اسمبلی شاخ عمران و پرویز پر بیٹھنے کے منتظر،بس ہری جھنڈی کے انتظار میں ہیں ۔ موجودہ صورتحال میں جو بھی عمران خان اور پرویز الٰہی کو چھوڑ کر جائےگا خطا ہی کھائے گا ۔ پوری پی ڈی ایم کے حواس پر سوار عمران خان ہی حقیقی و اصلی طور پر پرویز الٰہی کےلئے جیت کا نشان ہیں۔عمران خان سے جڑے رہنے میں پرویز الٰہی کی بہتری اور یہی وزارت اعلیٰ کے قائم رہنے کا اور مستقبل میں مزید کامیابیاں سمیٹنے کا صحیح اور بہتر راستہ،عمران خان تو کامیاب ٹھہرے ہی ہیں ، پرویز الٰہی کو ساتھ رکھتے،اونچے مقام پر دیکھتے ہیں۔پرویز الٰہی وزیر اعلی رہتے ہوئے مہان پوزیشن میں آ جائیں گے اور ن لیگ خدا نخواستہ خش و خاشاک کی طرح بہتی نظر آتی ہے۔جسے سبھی ارکان صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی و ق لیگ بخوبی سمجھتے،جانتے اورپرکھتے ہیں ۔اب خطرہ تو اس حد تک بھی ہے کہ کہیں جنرل الیکشن آنے تک بہت سے تتر بٹیر پی ڈی ایم بالخصوص ن لیگ کے پاس سے اڑ کر عمران اور پرویز الٰہی شاخ پر ہی نہ بیٹھ جائیں ۔ حالات کا صحیح رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے