حال ہی میں چند غیر مصدقہ خبروں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غیر ضروری بحث کو جنم دیا ہے جن میں دعوی کیا گیا کہ پاکستان نے امریکی اداروں یا وائٹ ہاؤس کے ساتھ بلوچستان کے پسنی پورٹ سے متعلق کسی ممکنہ تعاون پر بات چیت کی ہے۔ تاہم ذمہ دار ذرائع نے واضح الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت یا فوج کے کسی ادارے کی جانب سے اس نوعیت کی کوئی گفتگو یا تجویز سامنے نہیں آئی۔ اصل حقائق کے مطابق پسنی پورٹ سے متعلق جو بات چیت ہوئی وہ صرف نجی کاروباری سطح پر ابتدائی نوعیت کے خیالات کا تبادلہ تھی، جس کا ریاستی پالیسی یا حکومتی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض نجی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے درمیان ایسی گفت و شنید کو خبر کے طور پر اس انداز میں پیش کرنا کہ گویا یہ پاکستان کی سرکاری پالیسی ہے نہ صرف غیر ذمہ دارانہ طرز رپورٹنگ ہے بلکہ قومی اداروں کی ساکھ پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ خبر میں نجی رابطوں اور سرکاری پالیسی کے درمیان فرق کو جان بوجھ کر یا لاعلمی میں دھندلا دیا گیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید کسی ادارے کی سطح پر اس منصوبے کی حمایت موجود ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس پی آر اور دیگر متعلقہ اداروں نے واضح کیا ہے کہ اس معاملے پر نہ تو کوئی سرکاری تجویز پیش کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ جاتی سطح کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ بھی قابل غور امر ہے کہ اس رپورٹ میں ایک ہی وقت میں نجی ذرائع اور سرکاری ذرائع دونوں کے حوالے دیے گئے جس سے قارئین کے ذہن میں الجھن پیدا ہوئی۔ اگر کوئی خیال نجی سطح پر زیرِ بحث ہو تو اسے سرکاری منصوبہ کے طور پر پیش کرنا صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں رپورٹ میں خود یہ اعتراف موجود ہے کہ پسنی پورٹ کا تصور غیر سرکاری اور ابتدائی نوعیت کا ہے مگر ساتھ ہی ایک امریکی عہدیدار سے اس پر رائے لی گئی اور اس تبصرے کو یوں شامل کیا گیا جیسے یہ کسی ریاستی تجویز پر ردعمل ہو۔ یہ طرز پیشکش تضاد کا شکار ہے اور نجی سطح کے خیالات کو قومی پالیسی سے بلاوجہ جوڑنے کی کوشش ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ایک نجی کاروباری خیال کو خارجہ پالیسی یا تزویراتی خدشات سے جوڑنا بلاوجہ کی مبالغہ آرائی ہے۔
دنیا بھر میں سرمایہ کار مختلف منصوبوں کے بارے میں ابتدائی بات چیت کرتے ہیں لیکن انہیں ریاستی فیصلوں کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ پاکستان بھی دیگر خودمختار ممالک کی طرح اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ اس کی واض مثالیں بھارت اور دیگر ممالک کے تعلقات ہیں بھارت ایک جانب چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے روس سے توانائی خریدتا ہے امریکہ سے عسکری تعاون حاصل کرتا ہے اور اسرائیل و ایران کے ساتھ بھی مختلف سطحوں پر رابطے رکھتا ہے ۔ اسے تزویراتی خودمختاری (Strategic Autonomy) کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مفاد میں فیصلے خود کرے بغیر کسی بیرونی دبا یا تاثر کے۔ پاکستان کے موجودہ منصوبے خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)اپنی جگہ مستحکم ہیں۔ اگر مستقبل میں کسی نئے منصوبے پر غور کیا بھی گیا تو وہ ادارہ جاتی عمل، بین الوزارتی مشاورت، قانونی جانچ اور کابینہ کی منظوری کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ کسی نجی گفتگو یا سرمایہ کار کے خیال کو قومی پالیسی کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی یا تزویراتی منصوبے کبھی محض بات چیت سے شروع نہیں ہوتے۔
ان کے لیے طویل مرحلہ وار عمل، سیکیورٹی اسسمنٹ، ریگولیٹری منظوری اور بین الاقوامی معاہدات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی تجویز قومی مفاد کے مطابق ہو تو اسے سرکاری سطح پر لانے کے لیے مخصوص ادارہ جاتی طریقہ کار موجود ہے۔ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پسنی پورٹ کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کسی ملک، ادارے یا حکومت کو کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔ یہ صرف ایک غیر سرکاری ابتدائی نوعیت کا کاروباری تصور ہے جو ابھی کسی پالیسی یا منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل نہیں ہوا۔میڈیا اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نوعیت کی خبروں میں تصدیق شدہ معلومات ہی نشر کریں بالخصوص جب بات قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی سے متعلق ہو۔ غلط تاثر نہ صرف عوامی اعتماد کو متاثر کرتا ہے بلکہ پاکستان کے سفارتی تعلقات میں بھی غیر ضروری پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ شفافیت، خودمختاری اور قومی مفاد پر مبنی رہی ہے۔ کسی بھی نئے منصوبے یا تعلق کے بارے میں فیصلہ تبھی کیا جائے گا جب وہ عوامی، اقتصادی اور تزویراتی اعتبار سے ملک کے لیے مفید ثابت ہو۔
کالم
پسنی پورٹ پر حقائق کے برعکس رپورٹنگ
- by web desk
- اکتوبر 11, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 46 Views
- 4 دن ago
