کالم

پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والا نیا قانون

گزشتہ دو سال میری زندگی پر بڑے بھاری رہے ان دو سالوں میں مجھے مختصر وقفوں کے دوران اچانک مختلف بیماریوں سے لڑنا پڑا لیکن بیماری کے اس عرصہ میں جو تجربات اور مشاہدات اور جو حقیقتیں مجھ پر کھلی وہ حیران کر دینے والی تھی میرے بہت سے دوست جو کبھی محفلوں میں میری غیر موجودگی پر پریشان ہو جایا کرتے تھے ان میں سے اکثر کو جب یہ یقین ہو گیا کہ شاید اب میں کبھی تندرست نہیں ہو سکوں گا تو آہستہ آہستہ مجھے ملنا تو کیا ٹیلی فون پر حال احوال پوچھنے سے بھی گئے لیکن اس کے برعکس یہ بھی ہوا کہ کالموں کے حوالے سے دنیا بھر میں میرے پڑھنے چاہنے پیار کرنے والوں نے اخباری صفحات سے میری طویل غیر حاضری کو محسوس کرتے ہوئے میرے ساتھ رابطے رکھنے میرے لیے دعاو¿ں کےساتھ ساتھ دواں کا انتظام بھی کیا اور میرے قریب بہت سے وہ جنہیں میں شناسائی تک تھا میرے قریب آگئے طویل دورانیہ کی بیماریوں میں معمول کی زندگی سے ہٹ کر مریض کی طرح گھنٹوں بستر پر لیٹے کبھی درد سے کراہنے کبھی خود کلامی کرنے کبھی ہر طرف سے مایوسی کے بعد خدا بزرگ برتر سے باتیں دعائیں التجائیں کرنے کے دوران محسوس ہوا کہ انسان چاہے بہت بڑا افسر ہو یہاں ایک عام آدمی سب کے سب بڑے بے بس ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے کہ انسان بہت کچھ کرنے پر قادر بنا دیاجاتا ہے لیکن سچ پوچھیں تو بیماری نے بتایا کہ ایک انسان کٹ پتلی کے سوا کچھ نہیں۔ سب کی تاریں اوپر والے کے ہاتھ میں ہوتی ہیں مگر انسان اپنے عہدے مرتبے اپنے کام اور اپنے نام کی وجہ سے بلاوجہ اکڑتا پھرتا ہے اور پھر اگر کبھی اوپر والے کی پکڑ میں آتا ہے تو اسے اپنی اوقات یاد آنے لگتی ہے ایک لوتھڑے سے جمعے ہوئے خون سے پیدا ہونے والا پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا کیا کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ بیماری جہاں ہر شخص کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں وہاں بیماری انسان کو موقع دیتی ہے۔ اللہ کے قریب ہونے کا اپنا احتساب کرنے کا اپنے متعلق سوچنے کا اپنے افعال و کردار کو جانچنے کا اور اس لحاظ سے بیماری بھی ایک نعمت ہوتی ہے۔ میں نے بیماری کے دوران بیشتر وقت خود کو بے بس و بے کس پایا ،یہاں تک کہ ضروری امور انجام دینے کے لیے بھی کسی دوسرے کی ضرورت محسوس ہوتی تو یہ احساس ہوتا کہ گوشت پوست کا انسان بس کچھ بھی نہیں اور یہ حدیث مبارکہ شدت سے یاد آتی کہ میرے آقا مولا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے جب مانگو صحت اور تندرستی مانگو بیماری کی یادیں اور باتیں ابھی تک نہیں بھول سکا، بیماری کے دوران ایک سے زیادہ مرتبہ بڑا تلخ تجربہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں طریقہ علاج بھی ایک سے زیادہ قسم کا ہوتا ہے، سرکاری ہسپتالوں میں جہاں مفت علاج معالجہ کیلئے غریب مریضوں کی تعداد بہت ہوتی ہے ،وہاں اکثر ڈاکٹروں کے اندر چھوٹے چھوٹے فرعون بیٹھے ہوتے ہیں، جو مریض کو دیکھے سننے بغیر ادویات کی پرچی تھما کر بازار سے ادویات وغیرہ خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اکثر ڈاکٹر بظاہر تو سرکار کے ملازم ہوتے ہیں مگر ادویات تجویز کرتے ہوئے وہ کسی دوا ساز کمپنی کے ایجنٹ زیادہ لگتے ہیں، گزشتہ دنوں ایک عالمی سروے میں پاکستانی ڈاکٹروں کے بارے میں ریمارکس دیے گئے کہ اکثر ڈاکٹر مریض کی بیماری سے مختلف ادویات تجویز کر دیتے ہیں جس سے مریض اصل بیماری کے علاوہ غلط تجویز شدہ ادویات سے نئی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ علاج صاحب حیثیت بیماروں کے لیے پرائیویٹ ہسپتالوں کی صورت میں بھی دستیاب ہے جہاں مریض کی بیماری سے زیادہ اس کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھ کر علاج کیا جاتا ہے ان اکثر پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریض کی کھال اتارنے کے لیے بیک وقت پانچ دس ٹیسٹ لکھ دیے جاتے ہیں اور ساتھ بتایا جاتا ہے کہ فلاں لیبارٹری کا ٹیسٹ ہی قابل قبول ہوگا ،اس طرح بھاری فیسیں ادا کرنے کے علاوہ مہنگی ترین لیباٹری کے ٹیسٹوں سے بھی بعض بڑے بڑے ڈاکٹرز کو لاکھوں روپے کی آمدن ہو جاتی ہے اور یوں مریض تو شاید بچ جاتا ہے لیکن مالی طور پر وہ اس جگہ پہنچ جاتا ہے کہ جہاں بیماری ڈاکٹر اور ہسپتال کے نام سے ہی خوف کھانے لگتا ہے ،ایسا کیوں ہے کتنی حکومتیں تبدیل ہوئی کتنے حکمران آئے لیکن کسی نے ان سنگین معاملات کو کبھی زیر غور بھی نہیں لایا یہاں پہنچا ہوں تو مجھے کینیڈا سے برادر آفتاب احمد جو اپنے نام کے ساتھ چوہدری لگانا پسند نہیں کرتے اور ہالینڈ سے کرامت علی چودری اور امریکہ سے آفتاب کے ڈاکٹر بھائی اور بھابھی یاد آرہی ہیں ،وہ بتاتے ہیں کہ ان ممالک میں ہسپتالوں کا سسٹم کچھ اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ عام آدمی سے لے کر وزیراعظم تک سبھی کا علاج معالجہ اور طبی سہولتیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور یہاں تک کہ غیر ملکی لوگ بھی طب کی یہ سہولتیں با آسانی حاصل کرنے کے مستحق ہوتے ہیں اور ہسپتال کے مریضوں کو دوا دارو کے علاوہ خوراک اور پوشاک بھی ہسپتال کی ذمہ داری ہوتی ہے، جبکہ جعلی ادویات اور غیر ضروری ٹیسٹوں کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔ کب ہم ان غیر مسلم ممالک کے ایک نظام کو جو انہوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے حاصل کئے ہیں کی طرح تعلیم صحت حفاظت کفالت روزگار مناسب اجرت اور سوشل ویلفیئر جیسی بنیادی انسانی سہولتیں حاصل کر سکیں گے، کب ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہوں گے اور کب ترقی و خوشحالی کی سڑک پر چڑھ سکیں گے ،کل پنجاب اسمبلی سے اپوزیشن اور صحافیوں کے احتجاج کے باوجود پاس ہونے والے عزت ہتک کے سنہری قانون کے بعد تو لگتا ہے ہم جلد ہی وہ سب کچھ حاصل کر لیں گے جو ایک آزاد خود مختار ملک کے آزاد اور خود مختار شہریوں کا بنیادی حق ہوتا ہے میں حیران ہوں کہ جب تعزیرات پاکستان میں اور پیکا کے نئے قانون سے بھی اگر حکمرانوں کا دل نہیں بھرا تو پھرنومولود نئے سنہری قانون کے بعد اب یہی رہ جاتا ہے کہ تمام الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا کو بند کر کے صرف پاکستان ٹیلی وژن اور ایک سرکاری گزٹ پر اکتفاکر لیا جائے اور باقی رہے صحافی تو وہ تو پہلے ہی بھوک ننگ کی زندگیاں گزار رہے ہیں اب پریس کلبوں کے اندر اور باہر چھابڑیاں لگا کر اپناگزارا کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri