کالم

پنجاب میں تولیدی صحت!

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ پنجاب ہے اور اس کے 41 اضلاع ہیں ۔ پنجاب کا زیادہ تر علاقہ میدانی ہے، یہاں پر بہترین نہری نظام ہے۔یہاں کی اکثریت آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔صوبہ پنجاب کا کلچر پرکشش ہے، یہاں کے لوگ پرامن ، ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔دنیا کا یہ خطہ جہاںزراعت کے لئے بہترین ہے ،و ہاں یہ خوبصورت ترین بھی ہے ۔صوبہ پنجاب کا ہر ضلع سیاحت کیلئے بہترین ہے، دنیا بھر کے سیاحوں کو پنجاب کا رخ کرنا چاہیے، یہاں کی تہذیب وتمدن ، ثقافت، خوبصورتی اور مہمان نوازی اُن کو سدا یاد رہے گی۔کہتے ہیں کہ پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں لیکن بسااوقات یہ کانٹے معاشی ، معاشرتی اور جسمانی مسائل کے اسباب بھی بنتے ہیں۔بعض افراد کو ایسے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جو کہ تکلیف اور کرب کے باوجود مدد یا رہنمائی کے حصول میںکچھ چیزیں حائل ہوتی ہیں، یہی معاملات شعور و آگہی سے حل ہوسکتے ہیں، یقینا انسان دوست افراد ان مسائل کو حل کرنے کے لئے تگ و دو کررہے ہیں، امید ہے کہ ان کی کاوشیں رنگ لائیں گی اور شعورو آگہی کے ذریعے وسیب کے بڑی تعداد سکھ پائینگے۔صوبہ پنجاب سمیت پاکستان میں جہاں بہت سی چیزیں قابل تعریف ہیں،وہاں بعض چیزیں قابل اصلاح بھی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں کم عمری کی شادیوں، بعض معاملات میں شعور و آگہی کا فقدان، تعلیم کے حصول سے دوری ، بچوں اور بچیوں کو کھیل کود کے مواقع نہ دینے کے باعث متعدد مسائل پیش آتے ہیں،ان مسائل کو تحریرکرنے سے قبل چند واقعات کا تذکرہ کرتا ہوں (الف)ضلع سیالکوٹ میں ایک تقریب میں پندرہ سولہ سال لڑکی ملی جس کی گود میں ایک بچہ تھا،وہ لڑکی بچے کی ماں تھی، اس لڑکی کو طلاق بھی ہوچکی تھی۔ستم کی بات یہ ہے کہ یہ ماں خود بھی ایک لڑکی تھی، اب اس کی اپنی نشوونما کا عمل جاری تھا ،مگروہ لڑکی ماں بھی بن گئی۔اس عمل سے لڑکی (ماں) خود بھی کمزور اور بچہ بھی کمزور ۔اگر اس طرح کمزور بچے پیدا ہوتے رہے تو ہمارا معاشرہ کمزور اور لاغر افراد پر مشتمل ہوجائے گا، ایسے کمزور افراد ملک کے نظام میں کیسے معاونت کریں گے؟مذکورہ لڑکی کو بھی زیست میں متعدد مسائل درپیش ہونگے۔(ب) ذرائع کے مطابق ضلع قصور میں ایک ساتویں کلاس کی طالبہ کی شادی ہونی تھی، اس لڑکی نے اپنے والدین سے التجا کیا کہ اب میری شادی نہ کروائیں بلکہ جب میں کم از کم دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرلوں تو میری شادی کریں۔ "پودا پاکستان "نے ضلع قصور میں نکاح خوانوں کی تربیت نشست کا اہتمام کیا تو اس کے اثرات سے بچی کی شادی ملتوی ہوگئی اور وقتی طور پر لڑکی کو ریلیف مل گیا،اس کا ایک جائز اور معقول مطالبہ تسلیم کرلیا گیا۔درجہ بالا واقعات کی طرح نہ صرف صوبہ پنجاب بلکہ پاکستان اور پڑوسی ممالک میں بھی واقعات رونما ہوتے ہونگے۔ صوبہ پنجاب سمیت دنیا بھر میں روزانہ800خواتین دوران زچگی انتقال کرجاتی ہیں۔ 2015ءمیں پاکستان میں زچگی کے دوران 9007 خواتین وفات پاگئیں اور یہ دنیا کا پانچواں نمبر ہے۔اس سلسلے میں جنوبی ایشیاءمیں پاکستان کا شمار صرف نیپال اور افغانستان سے بہتر ہے،2024ءتک عملی طور پر اس میں کوئی بہتری نہیں آئی۔عالمی ادارہ اطفال کے مطابق 15 سے 19سال تک کی عمر کی ماں زچگی کے دوران مرنے کا امکان 20سال کی عمر میں بننے والی ماں سے دو گنا ہوتا ہے۔کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کا صحت سے گہرا تعلق ہے۔ایک لڑکی جس کی اپنی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ ماں بن جاتی ہے، اس سے زچہ وبچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔پیدا ہونے والے بچے کمزور اور لاغر ہوتے ہیں اور ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی51.1فی صد تولیدی عمر کی خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں،پاکستان اس لحاظ سے 185 ممالک میں180 ویں نمبر پر ہے۔آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی کل خواتین کا 60.31فی صد دیہاتوں میںرہتی ہیں اور پاکستان کی59.21فی صدخواتین دیہاتوں میں رہتی ہیں۔ملک کے دیہی علاقوں کی 5 سے9سال کی عمر کی صرف 48فی صد بچیاں سکولوں میں داخل ہوتی ہیں ،10 سے 12 سال کی عمر کی محض15فی صد بچیاں مڈل سکولوں میں داخل ہوتی ہیں جبکہ 13 سے 14سال کی عمر کی صرف9فی صد لڑکیاں سکینڈری سکولوں میں داخلہ لیتی ہیں۔ پاکستان میں خصوصاً دیہاتوں میں لڑکیوں کےلئے مڈل اور ہائی سکول لیول کی تعلیم کے حصول میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں، اُن کے لئے اپنے ہی گھر سے سب سے بڑی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، ان کے گھر والے کہہ دیتے ہیں کہ اب لڑکی بڑی ہوگئی ہے، اب اس کو سکول نہیں جانا چاہیے۔اسی لڑکی سے گھر سے باہر کھیتوں میں کام لیے جاتے ہیں لیکن تعلیم کے حصول کے لئے سکول نہیں بھیجتے ہیں۔یہ لڑکی کی تعلیم اور کھیل کے دن ہوتے ہیں لیکن ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں کو صحت کے بارے میں بھی گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ ان مسائل کا کسی کے سامنے ذکر نہیں کرسکتی ،اس سے ان کے مسائل اور تکالیف میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ صوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں لڑکیاں تولیدی صحت کے بارے میں جانکھاری نہیں لے سکتیں ، گو کہ تولیدی صحت ایک فطری عمل ہے،اس کے بارے میں مشکلات اور مسائل درپیش آسکتے ہیں لیکن لڑکیوں کو ان کے بارے میں جاننا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ تولیدی صحت کے بارے میں لڑکیوں کی مائیں، خواتین اساتذہ اور لیڈی ڈاکٹرزاہم کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن فرینڈلی ماحول نہ ہونے کے باعث لڑکیاں ڈر اور خوف کے مارے اپنے مسائل ان کے ساتھ شیئر بھی نہیں کرسکتی ہیں۔لہٰذا بچیوں کی مائیں ، خواتین اساتذہ اور لیڈی ڈاکٹرز کو ڈکٹیٹر یا وڈیرہ بننے کی بجائے ایک ہمدرد اور محسن کا رول ادا کرنا چاہیے اور بچیوں کو فرینڈلی ماحول فراہم کرنا چاہیے تاکہ لڑکیاں تولیدی صحت اور دیگر معاملات کے بارے میں ان سے مدد اور رہنمائی لے سکیں،اُن کی انتہائی پیار و محبت اور شاہستگی سے رہنمائی کرنی چاہیے۔ ان کو اینڈومیٹریوسز سمیت دیگر بیماریوں ، ان سے جڑے معاملات ، جسم میں تبدیلیوں کے بارے میں آگہی دینی چاہیے تاکہ ان کی درد ، کرب اور تکلیف میں کمی لائی جاسکے، اس دوران کونسی ادویات کا استعمال کرنا چاہیے ،کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے؟ ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ پنجاب میںوالدین، خواتین اساتذہ، لیڈی ڈاکٹرز ، حکومت پنجاب اور این جی اوز اس سلسلے میں شعور و آگہی کےلئے کردار اداکریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے