اس بات کونظر انداز کرنا ناممکن ہے کہ ہماری پولیس اس وقت22کروڑ عوام کے دلوں کی نفرت کا معمہ بن چکی ہے،قابل انسپکٹرز کو نظر انداز کر کے نا تجربہ کار سب انسپکٹرز کو تھانوں کا ارباب اختیار بنانا بھی ماسواے شرمندگی سے کم نہیں ہے سوال یہ ہے کہ پنجاب میں جرائم بڑھ گئے ہیں،پولیس میں رشوت کا ریٹ بھی روز افزوں ہے، افسروں میں ٹک ٹاکر بننے کا رجحان زیادہ ہے،بلکہ پولیس کا کام اداکاری کے شعبے میں ایوارڈ لینا نہیں،تھانوں کو چمکا کے اور لش پش سہولتیں دکھا کر عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا، تھانوں میں لوگ تفریح کرنے نہیں آتے کہ چمکتا دمکتا ماحول دیکھ کر خوش ہو جائیں،وہ داد رسی کےلئے آتے ہیں،انصاف چاہتے ہیں، آج بھی ایس ایچ او صاحبان تھانوں میں دستیاب نہیں ہوتے اور فون پر نظام چلا رہے ہوتے ہیں،ان سے فون پر رابطہ ہو جائے تو یہ گھسا پٹا جملہ بڑی سنگدلی سے کہتے ہیں،آپ فرنٹ ڈیسک پر درخواست جمع کرا جائیں،کارروائی کرینگے۔یہ فرنٹ ڈیسک پر درخواست جمع کرانے والا بھی پولیس کا بہت بڑا فراڈ اور ڈھکوسلہ ہے،جس کے ذریعے سائلین کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے،کوئی افسر اپنے ماتحتوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا،ہاں البتہ ٹک ٹاک چاہے صبح سے شام تک بنوا تھکنے کا نام نہیں لے گا۔یہ باتیں آج اِس لئے یاد آئیں کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے لاہور میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کےلئے بلائے گئے اجلاس میں خاصی سخت باتیں کی ہیں۔سچی بات ہے مجھے اِن باتوں کی ان سے توقع نہیں تھی،کیونکہ میں سمجھتا ہوں پولیس کے کاریگر افسروں نے انہیں پروٹوکول کی چکا چوند میں مبتلا کر کے اتنا خوش کر دیا ہے کہ وہ اب آئی جی اور دیگر افسروں کے گن ہی گاتی ہوں گی،مگر نہیں صاحب یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مریم نواز نے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کو سامنے بٹھا کے پنجاب میں جرائم کی صورتحال پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔انہوں نے کہہ دیا کہ موجودہ صورتحال قابلِ قبول نہیں، جرائم کی شرح کو ہر صورت نیچے لانا ہو گا، انہوں نے یہ بھی کہا پولیس کی قربانیاں اپنی جگہ قابلِ ستائش ہیں،مگر پولیس میں کالی بھیڑیں بھی ہیں انکا محاسبہ ضروری ہے،معاشرے میں جرائم بڑھ جائیں تو تمام ریفارمز اور ترقی بے معنی ہو جاتی ہیں انہوں نے ضلعی پولیس افسروں کو اپنے اپنے اضلاع کوکرپٹ اہلکاروں اور جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔صوبے میں کہیں بھی نوگو ایریا نہیں ہونا چاہئے،اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس افسر اور انکے ماتحت کسی وزیراعلی کی زبان سے ایسے فرمودات سروس میں کئی بار سنتے ہیں اور عادی ہو چکے ہوتے ہیں، بلکہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں،کرنا انہوں نے وہی ہوتا ہے جو پولیس کے رائج الوقت کلچر کا حصہ ہے۔وہ پولیس ہی کیا جو رشوت نہ لے، میرٹ پر کام کرے،جھوٹے پرچے درج نہ کرے اور طاقتوروں کے مقابلے میں مظلوم کی مدد کو آئے، آج کے ٹک ٹاکر افسر تو ویسے بھی ڈی ٹریک ہو چکے ہیں، ان کا خیال ہے ایک وڈیو لگا کر جتنے لائیکس مل جاتے ہیں ان کی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کےلئے وہی کافی ہے۔مریم نواز نے کہا ہے پولیس کو سیاست سے آزاد کر دیا ہے،اب وہ عوام کو جواب دہ ہے اسلئے کوئی عذر قابل ِ قبول نہیںلیکن یہ پولیس والے بھی جانتے ہیں پولیس کے بغیر سیاست چل ہی نہیں سکتی۔ پنجاب پولیس نے تو پچھلے دو برسوں میں جو تاریخی سیاسی کردار ادا کیا ہے اسے تو بھلایا ہی نہیں جا سکتا، خیر اگر مریم نواز کامطلب یہ ہے اب کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے کہنے پر کسی پولیس افسر کا تبادلہ یا تقرری نہیں کی جائے گی۔ تو یاد دہانی کے لئے عرض ہے ایسا ہر وزیر اعلی نے تکیہ کلام کے طور پر اپنے دورِ حکمرانی میں ضرور کہا ہے، مگر حقیقت ہمیشہ اس کے برعکس رہی ہے، اللہ کرے وزیر اعلی مریم نواز اس پر ثابت قدم رہیں، ایک طرف پولیس افسروں اور اہلکاروں کو سیاسی دباو¿ سے آزاد کرا دیں اور دوسری طرف ان سے جرائم کے خلاف نتائج بھی مانگیں تو واقعی لگے گا کہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی کچھ نیا کر گئی ہیں۔ مریم نواز نے اجلاس کے دوران آئی جی کے سامنے ایک دو مثالیں بھی رکھی ہیں، انہوں نے کہا ہے تنخواہ لیکر جانے والے مزدوروں کا لٹ جانا شرمناک ہے اور ٹریفک وارڈنز کی موجودگی میں ٹریفک بلاک ہونا افسوسناک ۔ ٹریفک کے حوالے سے وزیراعلی کو علیحدہ اجلاس طلب کرنا چاہئے،اسے وارڈنز سے لیکر اعلی افسروں تک سب نے اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے، اب تو یہ گنگا بھی بہہ رہی ہے کہ ڈویژن اور ضلع کے پولس سربراہوں نے اپنے اپنے کار لفٹر چلا دیئے ہیں جن کی آمدنی سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوتی بلکہ پولیس ویلفیئر فنڈ کے نام پر ذاتی صوابدیدی فنڈ میں جمع ہو جاتی ہے۔ہر سڑک پر آپ کو ٹریفک وارڈنز تو نظر آئینگے، مگر ان کی توجہ ٹریفک کی روانی پر ہرگز نہیں ہو گی، بلکہ موٹر سائیکل سواروں کو گھیر کے چالان کرنے پر مرکوز ہو گی، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ محکمہ ٹریفک پولیس پنجاب حکومت کا کماو¿ محکمہ ہے، جو ہر ماہ کروڑوں روپے کما کر دیتا ہے ۔ جب ترجیح یہ ہو گی تو پھر چل گئی ٹریفک اور کم ہو گئے حادثات۔پنجاب میں جرائم کی صورت حال واقعی تشویشناک ہے وزیراعلی مریم نواز نے بروقت اجلاس بلا کر اچھا کیا ہے۔ تاہم یہ معاملہ صرف نشستندبرخاستند تک نہیں رہنا چاہئے، بلکہ ہر ماہ ایسا اجلاس بلا کر وہ پولیس کی کارکردگی رپورٹ مانگیں، جعلی اعداد و شمار کی بجائے میڈیا اور ایجنسیوں کے ذریعے صورتحال کا جائزہ لیں سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دیں کہ تھانوں میں پولیس کا رویہ سائلوں کے ساتھ درست ہوا ہے یا نہیں، جنہیں انہوں نے کالی بھیڑیں کہا ہے وہ زیادہ تر تھانوں ہی میں پائی جاتی ہیں ہمارا پولیس نظام دو حصوں میں منقسم ہے، عموما ضلع کے پولیس سربراہ سی ایس پی ہوتے ہیں، جبکہ ان کا ماتحت عملہ رینکر کہلاتا ہے۔ سی ایس پی افسروں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خبط عظمت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ماتحتوں سے عام حالات میں بات تک نہیں کرتے،البتہ جب کسی کو سزا دینی ہو تو لٹھ لے کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایس ایچ او اپنے تھانے کے کرپٹ اہلکاروں کو تحفظ دیتا ہے، سرکل افسر ڈی ایس پی ایس ایچ اوز کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ رہ گیا ڈی پی او یا سی پی او تو اس تک اصل حقائق پہنچتے ہی نہیں،اکثر افسر آج کل اپنے ٹھنڈے کمروں سے نکلتے ضرور ہیں مگر صرف ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کےلئے، ایک اور ڈرامہ جو عوام کو ریلیف دینے کے نام پر کیا جاتا ہے، وہ پولیس افسروں کی کھلی کچہریاں ہیں ان میں سائلین کو ریلیف تو کیا ملتا الٹا متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او اور عملہ ان کے خلاف ہو جاتا ہے۔ مریم نواز نے پنجاب میں بڑھتے ہوئے جرائم اور پولیس کی کالی بھیڑوں پر توجہ تو دی ہے، مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ایک بگڑا ہوا عوامی اعتماد سے محروم محکمہ جب تک اپنی اصلاح خود کرنے کا آغاز نہیں کرتا اِس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی سالہا سال کی تاریخ اور تجربہ یہی بتاتا ہے۔