پنجاب کا پنجابی زبان میں اکلوتا ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ جو سرکار کی تحویل میں ہے بہت عرصہ سے بند ہے گذشتہ روز پلاک کی طرف سے پیغام آیا کہ کلچر ڈے کے حوالہ سے پروگرام ہے اس لیے پنجابی لباس زیب تن کرکے پروگرام میں شامل ہونا خوشی ہوئی کہ چلو اسی بہانے پروگرام تو شروع ہوا لیکن پھر پیغام آیا کہ پروگرام کینسل کردیے گئے ہیں جبکہ پنجاب آرٹ کونسل اور الحمرا آرٹ کونسل بھی کلچر کو پروان چڑھانے کے لیے ہی وجود میں آئے اور یہ ہمارے وہ ادارے ہیں جہاں حکومت سالانہ کروڑوں روپے دیتی ہے کہ آپ پنجاب کا کلچر پروان چڑھائیں لیکن بدقسمتی سے نہ تو پنجاب کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور نہ ہی یہ ادارے پھل پھول رہے ہیں بلکہ ان اداروں میں کرپشن کی ایسی ایسی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں کہ دماغ چکرانا شروع ہوجاتا ہے صرف 5فروری اور 23مارچ کے دو پروگرام ہی کئی کروڑوں میں پڑ ے ہیں اور ہماری حکومتی ایجنسیاں نہ جانے کہاں مصروف ہیں جنہوں نے ان اداروں میں کرپشن کی آج تک کوئی رپورٹ ہی نہیں بنائی اس پر تفصٰلات بعد میں شیئر کرونگا گا کہ کس نے کتنے پیسے کس مد میں کھائے اور انکے سہولت کار کون ہیں ابھی تو کلچر کے حوالہ سے پڑھیں اور مزے لیں کہ ہمارے کلچر کے اداروں خاص کر الحمرا آرٹ کونسل اور پنجاب آرٹ کونسل کے سربراہان کا کلچر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جنکی وجہ سے نہ صرف ادارے اپنی حیثیت کھو چکے ہیں بلکہ پنجاب کا کلچر بھی دم توڑ رہا ہے سب سے پہلے تو پنجاب کے کلچر پر بات کرلیتے ہیں کہ یہ ہے کہ اور پھر ان اداروں کے سربراہان کی اہلیت پر بتاﺅنگا کہ ان اداروں کے سربراہان کس طرح کے ہونے چاہیے پنجاب کی ثقافت رنگا رنگ ثقافتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے جو اپنی روایات، فنون، موسیقی، اور کھانوں کے لیے مشہور ہے پنجاب کی ثقافت کے چند اہم رنگ یہ ہیں روایتی لباس جس میں پنجابی مرد دھوتی، کرتا، اور پگڑی پہنتے ہیں جبکہ خواتین شلوار قمیض اور دوپٹہ پہنتی ہیں پنجابی لباس رنگین اور خوبصورت ہوتا ہے اور اس میں مختلف قسم کی کڑھائی اور ڈیزائن استعمال ہوتے ہیں پنجاب کی موسیقی اور رقص بہت مشہور ہیں بھنگڑا اور گدا پنجاب کے دو مشہور روایتی رقص ہیں پنجابی موسیقی میں ڈھول، طبلہ اور ہارمونیم جیسے روایتی آلات استعمال ہوتے ہیں پنجابی کھانے بہت لذیذ اور مسالہ دار ہوتے ہیں جن میںمکھن، لسی، سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی پنجاب کے مشہور روایتی کھانے ہیں پنجاب کے پکوانوں میں گوشت اور سبزیوں کا استعمال عام ہے پنجاب میں مختلف قسم کے تہوار منائے جاتے ہیں ان میںبیساکھی، لوہڑی اور عید پنجاب کے مشہور تہوار ہیں یہ تہوار روایتی جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں اور ان میں موسیقی، رقص اور کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے پنجاب اپنی دستکاری کے لیے بھی مشہور ہے پھلکاری، کھسہ اور لکڑی کا کام پنجاب کی مشہور دستکاریاں ہیں جہاں روایتی ڈیزائن اور نمونے استعمال ہوتے ہیں پنجاب کی ثقافت پاکستان کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے یہ ایک متنوع اور متحرک ثقافت ہے جو اپنی روایات اور اقدار پر فخر کرتی ہے پنجاب کی ثقافت جو کہ صدیوں پرانی ہے اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے کچھ اندرونی اور چند بیرونی عناصر اس کی روایات اور اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور میڈیا کے ذریعے مغربی ثقافت تیزی سے نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہے جس سے نوجوان اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں مغربی طرز زندگی اور اقدار کو اپنانے کی کوشش میں پنجاب کے نوجوان اپنی ثقافتی شناخت کھو رہے ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں اداروں کی ہٹ دھرمی تو ہے ہی ساتھ میں صنعتی ترقی نے روایتی طرز زندگی کو تبدیل کر دیا ہے اورلوگوں کی مصروف زندگیوں میں روایتی تہواروں اور تقریبات کے لیے وقت نہیں بچتا ہمارے تعلیمی نظام میں اپنی ثقافت کی تاریخ اور روایات کو مناسب اہمیت نہیں دی جاتی جسکی وجہ سے نوجوان اپنے ثقافتی ورثے سے ناواقف رہ جاتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی لوگوں کو اپنی ثقافتی سرگرمیوں سے دور کر دیا ہے لوگ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہیں اور ثقافتی تقریبات میں شرکت کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں کچھ میڈیا پروگرام اور فلمیں مغربی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنی ثقافت کو نظر انداز کر رہے ہیںمیڈیا کو اپنی ثقافت کو فروغ دینے اور روایات کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے نئی نسل کا اپنی ثقافتی روایات سے دور ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ نوجوان اپنی تاریخی ورثے اور روایات سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں پنجاب کی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے تعلیمی نظام میں اپنی ثقافت کی تاریخ اور روایات کو شامل کیا جائے میڈیا اپنی ثقافت کو فروغ دے اور لوگوں کو اپنی ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جائے ۔اب آتے ہیں کلچر کے حوالہ سے بنائے گئے اداروں خاص کر پنجاب آرٹ کونسل اور الحمرا آرٹ کونسل جہاں کبھی بھی ان اداروں کے مطابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہیں لگے اس وقت بھی ان اداروں کے سربراہان کا کلچر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ وزیر کلچر کی بھی ان اداروں میں کوئی دلچسپی نہیں اگر خواجہ سلمان رفیق کو اس وزارت کا قلمدان دیدیا جاتا تو پنجاب کا کلچر تو پروان چڑھنا ہی تھا ساتھ میں اس کلچر سے جڑے ہوئے فنکاروں کا بھی حوصلہ بڑھنا تھا خیر بات ہو رہی تھی کہ ان اداروں کے سربراہان میں کیا خصوصیات ہونی چاہیے سب سے پہلی بات یہ کہ ان کے پاس آرٹ اور ثقافت کے متعلقہ شعبے کی ڈگر ی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے فن اور ثقافت سے گہری محبت اور سمجھ ہونی چاہیے انہیں مختلف فنون لطیفہ جیسے کہ موسیقی، رقص، تھیٹر، مصوری اور ادب کی سوجھ بوجھ اور کی قدرہونی چاہیے سربراہ کے پاس آرٹ اور ثقافت کے شعبے میں انتظامی تجربہ ہونا چاہیے انہیں آرٹ کے پروگراموں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرنے کے قابل ہونا چاہیے سربراہ میں آرٹسٹوں ،ملازمین اور رضاکاروں کی ایک ٹیم کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت ایک مثبت اور حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنے کے قابل ہونا چاہیے سربراہ کے پاس فنکاروں، سرکاری عہدیداروں اور عوام کے ساتھ مو¿ثر طریقے سے بات چیت کرنے کی مضبوط مواصلاتی مہارت ہونی چاہیے رابطے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی مہارت ہونی چاہیے انہیں حکومت، نجی عطیہ دہندگان اور کارپوریشنوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے قابل ہونا چاہیے آرٹس کونسل کے سربراہ کو دور اندیش ، منصفانہ اور شفاف ہونا چاہیے تاکہ آرٹس کونسل کے تمام معاملات بخوبی انجام پائیں جبکہ آرٹ کونسل میں فن اور ثقافت کے مستقبل کے لیے ایک وژن ہو تاکہ آرٹ اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے نئے اور اختراعی طریقے تیار کرسکے اور بدقسمتی سے اس وقت پنجاب میں کلچر کو پروان چڑھانے والے اداروں کے سربراہان میں سے کوئی بھی ان شرائط پر پورا نہیں اتررہا یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کلچر سے دور تو ہوہی رہے ہیں ساتھ میں ان اداروں کی افادیت بھی ختم ہو رہی ہے مگر خوش قسمتی سے اس وقت سیکریٹری اطلاعات اور کلچر پنجاب طاہر رضا ہمدانی نہ صرف پنجاب کے کلچر کو سمجھتے ہیں بلکہ پچھلے دنوں جو چند ایک تقریبات منعقد ہوئی وہ انہی کی کاوشوں سے ہو سکی انکی کوشش ہے کہ پنجاب میں کلچر کے ادارے پروان چڑھیں اور پھلیں پھولیں لیکن انکی ٹیم کام کے لحاظ سے فارغ ہے ۔