ملک بھر کے سرکاری ملازمین اور اساتذہ پنشن اور گریجویٹی میں مجوزہ کٹوتی کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پچھلے دنوں پنجاب بھر کے اسا تذہ لاہور میں اکھٹے ہوئے وہ اپنے مطالبات کے حق میں پر امن احتجاج کر رہے تھے وہ دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مطالبات کے حق میں احتجاج کرنا کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے اور 1973کا آئین پرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے لیکن نگران حکومت کی انتظامیہ نے نہتے اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا جس سے مبینہ طور پر کچھ مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلتا جا رہا ہے ۔ سکولوں اور دفاتر میں تالہ بندیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سکول بند ہونے سے طلبا کا تعلیمی نقصان ہو گا اور دفاتر بند ہونے سے عوام کے روز مرہ کے کام نہیں ہو سکیں گے۔ لیڈی ٹیچرز نے احتجاج کا انوکھا انداز اپناتے ہوئے محسن نقوی کی ڈمی میت سامنے رکھ کر شاعرانہ انداز میں بین کیا۔ ڈاکٹرز تنخواہیں بڑھانے کے لئے ہسپتالوں کی او پی ڈی بند کر دیتے ہیں مریض سسک کر مر رہے ہوتے ہیں انہیں مریضوں پر رحم نہیں آتا۔ حکومت ان سے بات چیت کرکے مسئلے کا حل نکال لیتی ہے۔جمہوری حکومتوں میں اگر معاشرے کا کوئی طبقہ وہ سرکاری ملازمین ہوں یا اساتذہ اپنی تنخواہیں بڑھانے یا ملازمت مستقل کروانے کے لئے اگر سڑکوں پر نکلتے تھے تو حکومتی وزرا ان کے مساہل سنتے تھے ان سے مذاکرات کرکے اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن نگران حکومت تو بے حس نظر آ رہی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ صرف انتخابات کروانے تک محدود ہے پنشن کے بنیادی ڈھانچے کو چھیڑنا ان کا اختیار نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں فیڈرل سیکرٹریٹ اسلام آباد کے سرکاری ملازمین نے اپنی تنخواہیں پڑھانے کے لئے کافی روز احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد قلم چھوڑ ہڑتال کر دی اور یہ سلسلہ کافی روز جاری رہا اور آخر کار حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر دیا۔ وفاقی حکومت اور فیڈرل سیکرٹریٹ کے ملازمین کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے اور حکومت نے ان کی تنخواہیں بڑھانے کے مطالبات مان لئے۔ کسی نے نہ لاٹھی چارج کیا نہ تشدد اور مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ تھا کہ چوں کہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادئیگی کا بل بڑھتا جا رہا ہے اور یہ معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے اسے کم کرنا چاہیے۔ حکومت نے مبینہ طور پر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے پنشن اسکیم 2023 کے تحت ترمیم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے پنشن کے فارمولے کی کیلکولیشن میں نمایاں تبدیلی کرتے ہوئے اب پینشن کی کیلکولیشن آخری 36 ماہ کی قابل پنشن رقم کے70 فیصد کی بنیاد پر کرنے کی تجویز دی ہے۔ پنشنرز کی وفات کے بعد فیملی پنشن صرف دس سال کی تجویز ہے۔ وفات پانے والے ملازم کا بچہ معزور ہونے کی صورت میں پنشن غیر معینہ مدت کے لئے ملے گی۔ شہدا کی فیملی پنشن بیس سال تجویز۔ پنشن میں سالانہ اضافہ کی رقم الگ رکھی جائے گی پنشن میں جمع نہیں ہو گی۔ پچیس سال ملازمت کے بعد چلد ریٹائرمنٹ پر 3 فیصد جرمانہ ہوگا۔ خام تنخواہ کا زیادہ سے زیادہ 25فیصد تک کمیوٹ ہوگا۔ انٹرنیٹ پر وئرل ہونے والی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ معمار قوم ریٹائرمنٹ پر نہ تو پچیس ایکڑ زرعی زمین مانگ رہے ہیں اور نہ ڈی ایچ اے اور سی ڈی اے میں پلاٹ وہ تو صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جن شرائط پر انہیں تنخواہ الاونسز اور پنشن دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جن کو مان کر انہوں نے نوکری قبول کی تھی انہیں ختم یا تبدیل نہ کرو۔ نہایت معمولی مراعات پر ساری زندگی اس پیشے کو دینے والے سے آخری عمر میں اس کے بڑھاپے کا سہارا پنشن تو نہ چھینو۔ پنشن قوانین میں تبدیلی پر ملک کے کونے کونے میں استاد احتجاج کر رہے ہیں نامور صحافی سر میاں کی رپورٹ کے مطابق میرے شہر نوشہرہورکاں میں بھی سرکاری سکولوں کے ٹیچرز ہڑتال پر ہیں۔ ہم ان کالموں کے ذریعے حکومت سے اپیل کریں گے کہ پنشن قوانین میں ترامیم کو آنےوالی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کا فائدہ نگران حکومت نے عوام کی طرف منتقل کرتے ہوئے پٹرول کی قیمتوں میں 40 روپے لیٹر اور ڈیزل 15 روپے لیٹر کم کر دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پٹرولیم مصنوعات میں یہ سب سے بڑی کمی ہے۔ اس کمی کو نگران حکومت نے پٹرولیم لیوی میں نہیں ڈالا بلکہ عوام کی طرف شفٹ کر دیا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو ٹرانسپورٹرز کرائے بڑھا دیتے ہیں لیکن پٹرول سستا ہونے پر کرائے کم نہیں کرتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کرائے کم نہ کرنے والے ٹراسپورٹرز کےخلاف سخت اقدامات اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ حکومت کا عوام کو ریلیف دینے کی طرف احسن اقدام ہے۔