کالم

پولیس کےلئے مختص 417ارب روپے کدھر گئے؟

ajaz-ahmed

سرکاری نوٹیفیکیشن کے مطابق حال ہی میں پولیس لائنز پشاور مسجد میں دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی خود کش حملے میں 81 افراد شہید اور 227 کے قریب بُری طرح زخمی ہوئے۔ پولیس لائن پشاور کو خیبر پختون خوا کا جی ایچ کیو بھی کہا سکتا تھا، کیونکہ پولیس لائن کے ایک طرف گورنر ہاﺅس ، وزیر اعلی ہاﺅس ہے جبکہ دوسری طرف پولیس لائن میں 3ہزار سے زیادہ پولیس اہل کار موجود ہوتے ہیں۔ اس بلڈنگ میں سی سی پی او، ایس ایس پی ، کمانڈنٹ اور دوسرے اعلی پولیس اہل کار وں کے دفا تربھی موجود ہیں۔ نیکٹا کا کہنا ہے کہ دہشت گر د جنکی تربیت بیرون ممالک ہوتی ہے انکو باہر سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے دہشت گر دوں کے پاس جدید قسم کے تھر مل اور لیزر گن ، نائٹ گوگلز ہیں مگر اسکے بر عکس خیبر پختون خوا پولیس کے پاس اتنا جدید ہتھیار نہیں کہ وہ دہشت گردںاورانتہاپسندوں کامقابلہ کریں۔ روایتی یعنیTraditional ہتھیارسے جدید اور Sophisticatedہتھیار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔مگر اسکے باوجود ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جس جاں فشانی اور بہادری سے دہشت گر دوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ، جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں انکی نظیر نہیں ملتی۔ اس بد قسمت واقع میں سینکڑوں بے گناہ زخمی افراد کو بچایا سکتا تھا مگر بد قسمتی سے خیبر پختونخوا حکومت کے پاس ملبہ ہٹانے اور اُٹھانے والے جدید اور ماڈرن آلات نہیں تھے جس کی وجہ سے بر وقت ملبہ نہیں اُٹھایا جا سکا۔ اور وہ زخمی جنکو بچایا جا سکتا تھا اُسکے بچانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔وفاقی حکومت نے تحریک انصاف حکومت کو پولیس اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے استعداد کار بڑھانے کےلئے 417 ارب روپے دئے تھے ۔ مگر سمجھ نہیں آتی خیبر پختون حکومت نے وہ پیسے کہاں خرچ کئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی جو گزشتہ ساڑھے 9 سال سے خیبر پختونخوا میں بر سر اقتدار رہی اور 132 قانون ساز جو وزیروں ، مشیروں اور سپیشل اسسٹنٹ کے عہدوں پربراجمان رہے ۔ اُنہوں نے خیبر پختونخوا پولیس کےلئے کچھ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ فی الوقت خیبر پختونخوا کے جری اور بہادر پولیس جدید ہتھیار نہ ہونے کی وجہ سے وہ مقابلہ نہیں کر سکتے جس کا جذبہ ہمارے پولیس اہلکار اور قانون نافذ کرنےوالے اہل کار رکھتے ہیں۔ دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر دور اور خا ص طور پر پی ٹی آئی اور اپنے دور کے دوسرے سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں نے پولیس کو سیاسی بنایا تھا ۔ میرٹ اور اہلیت پر تقرریاں اور تبادلے نہیں کئے جاتے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس کہ وہ استعداد کار نہیں ،جو ہونا چاہئے ۔ نہ صرف عمران خان کی حفاظت کےلئے سینکڑوں پولیس اور ایف سی اہل کار ڈیوٹی پر مامور ہوتے تھے بلکہ اسی طرح ہر دور میں صوبائی ، وفاقی وزراءاور اشرافیہ کےلئے ہزاروں پولیس اہلکار بھی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔گزشتہ دن سانحہ پولیس لائنز کےلئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیاتھا مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ قومی اسمبلی میں صرف 26 ایم این اے حضرات موجود تھے اور وہ بھی اسی موضوع پر بحث میں سنجیدہ نہ تھے اور ہمہ وقت اپنے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ حالانکہ کورم 186 ارکان پر مکمل ہوتا ہے۔ مگر دوران سیشن صرف 26 ایم این اے موجود تھے۔ جس وقت یہ واقع رونما ہوا تو اس وقت لاہور کے زمان پارک میں عمران خان رہائش کے سامنے سینکڑوں یوتھئے ڈانس اور گانے بجانے میں مصروف تھے اور دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کا ایک جلسہ بہاولپور میں منعقد ہو رہا تھا اور دونوں ایک دوسرے پر لعن طعن بھیج رہے تھے ۔اس سے ہمارے حکمرانوں کی غیر سنجیدہ روئے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کے اعلیٰ اہلکار جنہوں نے خیبر پختونخوا پر ساڑھے 9 سال حکومت کی۔ پی ٹی آئی کا کوئی ایم این اے، ایم پی اے یا دوسرا اعلیٰ اہل کار اور عہدیدار سانحہ پولیس لائنز کے شہیدوں اور زخمیوں سے اظہار یکجہتی کےلئے نہیں آئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے پولیس اہل کاروں کو جدید اور ماڈرن ہتھیارلیس کرنے کے ساتھ ساتھ انکی تربیت پر بھی زور دینا چاہئے کیونکہ جس جغرافیائی خطے میں ہم رہتے ہیں وہ دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی اہم ہے اور اسکی سٹریٹیجک حیثیت ہے ۔ اگر ہم نے پولیس اور قانون نا فذ کرنےوالے اداروں کو جدید اور اعلیٰ قسم کے ہتھیار مہیا نہیں کئے توہم دشمن کی جا رحیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔علاوہ ازیں ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختوں خوا پولیس ، ایف سی، اور دوسرے قانون نا فذ کرنے والے اداروں کو تنخواہیں اور مراعات دوسرے صوبوں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو برابر کئے جائیں تاکہ انکا احساس محرومی اور مالی مشکلات حل کرنے کا ازالہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri