اداریہ کالم

پُرامن انتخابات خوش آئند

ملک میں12ویں عام انتخابات کا ایک مرحلہ مکمل ہو گیا ،جو بذات خود ایک اہم بات کیوں کہ ان کے ہونے یا نہ ہونے بارے سوالات آخر دن تک اُٹھائے جاتے رہے۔ پرامن انتخابات یہ ایک مشکل کام تھا،جس ایک روز قبل بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی خدشات تھے کہ بڑے پیمانے پر بدامنی پھیل سکتی ہے تاہم سکیورٹی اداروں نے الیکشن کوپر امن انعقاد ممکن بنا کر مثال قائم کر دی۔یہ کامیابی بیرونی دنیا کو کتنی ہی معمولی لگتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ نے عام انتخابات کو ممکن بنانے اور پرامن رکھنے میں ہر ممکن کرردار ادا کیا۔ کامن ویلتھ آبزرور گروپ نے پہلے ہی اپنے مثبت نتائج کو شیئر کر دیا ہے۔بین الاقوامی مبصرین اور غیر ملکی میڈیا کے وفود چاروں طرف دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اگرچہ موبائل سروسز کی معطلی کے خلاف تنقید یقینی طور پر بہت زیادہ ہوئی ہے، لیکن تمام فریقوں کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ ایسا قدم بار بار کی یقین دہانیوں کے بعد اٹھایا گیا تھا، لاکھوں کی حفاظت کے بدلے انٹرنیٹ سروسز کو برقرار رکھنا شاید بہتر تھا۔ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے حکام کو مادر وطن کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی کے لیے سراہا جانا چاہیے جنہوں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی جگہ خود کو جانی نقصان کے طور پر پیش کرنے سے پہلے ایک پلک بھی نہیں جھکائی۔جمعرات کو پولنگ کے عمل کی نگرانی کے لیے سینکڑوں غیر ملکی میڈیا صحافی اور مبصر پاکستان بھر میں موجود تھے۔ مختلف ممالک کے 349 صحافیوں کو عام انتخابات کی کوریج کرتے دیکھا گیا۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں موجودگی خاص طور پر نظر آئی۔ اسکے علاوہ، متعدد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے 103مبصرین کو راولپنڈی،اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پولنگ کے عمل کی نگرانی کا چارج بھی دیا گیا۔ مختلف پولنگ اسٹیشنز کے اندر 60 پاکستان اور 43 غیر ملکی مبصرین کی موجودگی بھی دیکھی گئی جہاں انہوں نے پولنگ کے عمل کی براہ راست نگرانی کی۔ مجموعی طور پر 452 صحافی اور مبصرین اس پورے عمل کا حصہ تھے۔ بظاہر سست روی سے شروع ہونے والے الیکشن ڈے کا اختتام تنقید پر ہوا ۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کی وجہ سے پولنگ کے عمل میں تاخیر اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں بھی رپورٹ ہوئیں۔تاہ مصدرشکر کہ کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور بیشتر مقامات پر پولنگ کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے اختتام کو پہنچا۔اب صرف ووٹوں کی گنتی اور کامیاب امیدواروں کا اعلان ہونا باقی ہے، مکمل اور حتمی نتائج آنے کے بعد ہی ہمیں علم ہوسکے گا کہ ان تاریخی انتخابات میں کتنے فیصد لوگوں نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ انتخابات کئی اہم وجوہات کی بنا پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت بدترین معاشی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے جن کا مقابلہ صرف ایسی حکومت کرسکتی ہے جنہیں اپنے فیصلوں میں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہو۔ غیرملکی امداد پر انحصار کے پیش نظر پاکستان کا سماجی طور پر مستحکم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ قرض دہندگان اور سرمایہ کاروں کو اپنے فیصلوں پر تحفظ کا احساس ہو۔ جہاں ملک میں بہت سی قوتوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، ایسے میں ہم الیکشن کے انعقاد کو خوش آئند ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر آئین کے تحت ہی الیکشن کا انعقاد بروقت کر دیا جاتا،تو شاید سیاسی عدم استحکام میں وہ شدت نہ جو اس وقت بھی محسوس کی جاتی ہے۔ماضی کے انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام لگائے ہیں۔ کئی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ملک میں کبھی عام انتخابات صاف و شفاف ہو بھی سکیں گے یا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف سن 1970 کے انتخابات کو نسبتاً صاف و شفاف سمجھا جاتا ہے اور تمام طرح کی جدیدیت کے باوجود ملک میں اب بھی انتخابات کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پہ دھاندلیوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔اور یہ الزام بھی اب زبان زد عام ہے کہ نگران حکومت منصفانہ کرادار ادا نہیں کر سکے ہے۔خیر یہ سلسلہ تو چلتا رہے گے،اب اگلا مرحلہ حکومت سازی کا ہے،خدا کرے کہ وہ بغیر کسی دباو¿اور ضمیر خریدنے کے طے پائے۔افواج پاکستان نے ملک میں الیکشن کے مجموعی طور پر پر امن انعقاد پر قوم کو مبار کباد دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن پاکستانی عوام کی امنگوں کو پورا کرنے کی راہ ہموار کرے گا ۔ پاک فوج کو الیکشن عمل میں سیکیورٹی کی فراہمی میں کلیدی کردار پر فخر ہے۔ پاک فوج نے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مل کر ذمہ داریاں ادا کیں۔ ایک لاکھ 37ہزار جوان تقریبا 6 ہزار حساس پولنگ اسٹیشنز پر جبکہ 7ہزار 800 جوان کوئیک رسپانس فورس کے طور پر تعینات تھے، عوام کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ فوجی جوانوں نے مو¿ثر طریقے سے ملک بھر میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا، یہ اپنے شہریوں کے جمہوری حقوق کے تحفظ کےلئے سکیورٹی ایجنسیوں کے غیر متز لزل عزم کا اظہار ہے۔ جمہوری عمل کے تحفظ کےلئے مسلح افواج سے مل کر کام کرنے پر قانون نافذ کرنےوالے دیگر اداروں کے شکر گزار ہیں ۔ امید ہے یہ الیکشن پاکستان میں جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کےلئے اہم ہو گا،الیکشن پاکستانی عوام کی امنگوں کو پورا کرنے کی راہ ہموار کرے گا،مسلح افواج ملک میں امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں ۔ ادھر کامن ویلتھ کے مبصر گروپ کے سربراہ نے ملک میں ہونےوالے عام انتخابات کے حوالے سے کہا کہ انٹرنیٹ سے زیادہ اہم ووٹ ڈالنا ہے۔ کامن ویلتھ آبزرورز گروپ نے اسلام آباد کے مختلف پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا اور بیرون ملک سے آنے والے مبصرین، صحافی اور آبزرورز نے ووٹنگ صورتحال کا جائزہ لیا۔ کامن ویلتھ آبزرورزکے 25 رکنی وفد نے این اے47اسلام آبادکے مختلف پولنگ اسٹیشنزکادورہ کیا اور پولنگ کے عمل کو شفاف قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کامن ویلتھ کے مبصر گروپ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے پولنگ عمل سے مطمئن ہیں، انٹرنیٹ دریافت ہونے سے قبل ہم الیکشن کرا رہے تھے، انٹرنیٹ سے زیادہ اہم ووٹ ڈالنا ہے۔ ووٹنگ عمل میں انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں البتہ رزلٹ بھیجتے وقت انٹرنیٹ بندش سے مسائل آتے ہیں۔
کے پی کے اوربلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات
عام انتخابات 2024کے موقع پر خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے ضلع خاران میں دہشت گردی کے 2 الگ الگ واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے 6اہلکار شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ مقامی پولیس کے سربراہ روف قیصرانی نے بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ضلع کے علاقے کلاچی میں گشت پر مامور پولیس وین کو بم دھماکے اور فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس میں 4پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ اس حملے سے کچھ دیر قبل ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسزکی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید ہوگیا۔ دوسری جانب بلوچستان میں پاکستان لیویز کے اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ ضلع خاران کے علاقے لجا ٹاون میں ایک دھماکا ہوا، جس میں ہمارے 2جوان شہید اور 9زخمی ہو گئے۔دہشتگردی میں سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک پاک فوج کی جنگ جاری رہے گی۔ شرپسند عناصر صوبے کی پرامن فضا کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں جس کےلئے وہ اس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں کرتے ہیں لیکن ان کی یہ کارروائیاں ہمارے عزم و حوصلے کو کم نہیں کر سکتیں۔ دہشت گردی کی ان بزدلانہ کارروائیوں سے دشمنوں کے عزائم عیاں ہیں دہشت گرد کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔پوری قوم دہشت گردی کیخلاف متحد ہے، ملک دشمن قوتیں ملک کی ترقی اور امن و امان کی تیزی سے بہتر ہوتی صورتحال سے خائف ہیں لیکن دہشت گردی کے واقعات ہمارا حوصلہ پست نہیں کر سکتے۔ بحیثیت قوم ہم نے تخریب کاری کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور تخریب کاروں کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے اور آئندہ بھی ان کے مذموم مقاصد پورے نہیں ہونے دیئے جائیں گے ۔فورسز اور عوام مل کر دہشت گردی کے ناسور کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے اور ملک اور آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ ہو گا۔ پوری قوم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں متحد ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri