کالم

پہاڑوں کا بیٹایوسف مستی خان

rohail-akbar

یوسف مستی خان بھی دنیا چھوڑ گئے بلوچوں کے حقوق پر کھل کر بولنے والاایسا شخص میں نے کم ہی دیکھا ہے میری ان سے پہلی ملاقات ڈیوس روڈلاہور پر ایک ہوٹل میں ہوئی تھی استقلال پارٹی کے سربراہ سید منظور علی گیلانی صاحب کا فون آیا کہ کراچی سے یوسف مستی خان صاحب آئے ہوئے ہیں تو آپ بھی آجائیں میں جب انکے کمرے میں پہنچا تو خوبصورت وضع قطع والے یوسف مستی خان سے میرا تعارف ہوا ملکی اور سیاسی صورتحال پر گفتگو کرنے کے بعد پھر میں نے انکا ویڈیو انٹرویو بھی کرلیا انکی باتیں بڑی دلچسپ تھیں اسکے بعد ان سے دوسری ملاقات انکے گھر کراچی میں ہوئی سید منظور گیلانی اور یوسف مستی خان کے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو اظہر جمیل کے ہمراہ جب انکے گھر پہنچے تو وہاں کے درودیوار انکی جدوجہد کا عظیم البم تھی سیاہ بالوں سے لیکر سفید بالوں تک کا سفرانکی تصویروں سے جھلک رہا تھا اور انکا حوصلہ بھی قابل دید تھا ہمت اور جرات پہاڑوں کی طرح مضبوط تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ وہ پہاڑوں کا پیٹا جو تھا بلوچستان کے پہاڑ بہت بلند ہیں اور وہ اپنی دھرتی کے پہاڑوں جیسا تھا یوسف مستی خان صرف بہادر ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک عالم بھی تھایوسف مستی خان ایک عاشق بھی تھایوسف مستی خان ایک مزدور بھی تھااور وہ دوستوں کا دوست بھی تھا اس کا علم اس کا عشق اور اس کی محنت عظیم عوامی انقلاب کی امانت تھی اور تاریخ گواہ ہے اس نے اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کی مستی خان مظلوم عوام اور مظلوم اقوام کی جدوجہد کاسرکش سپاہی اور مدبر کمانڈر تھا اس سفر میں اگر وہ اپنے اصولوں پر تھوڑی بہت تبدیلی کرلیتا تا توبلوچستان کا گورنر یا چیف منسٹر بن جاتامگر وہ اپنے مشن پر ثابت قدم رہا یوسف مستی خان جیسے انسان ہر دن اور ہر دور کے مقدر میں نہیں ہوتے ایسے انسان جنم نہیں لیتے ایسے انسان نازل ہوتے ہیں وہ بلوچستان کے پہاڑوں پراذان انقلاب کی طرح نازل ہوایوسف مستی خان محب وطن کمیونسٹ تھے وہ قومی اور طبقاتی جدوجہد کا سنگم تھے یوسف مستی خان بھولے بھٹکے لوگوں کیلئے ایک راستہ بھی تھے یوسف مستی خان ایک منزل بھی تھے اور یوسف مستی خان اسی منزل کے ایک مسافر بھی تھے یوسف مستی خان 16 جولائی 1948 کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے دو اسکولوں سے حاصل کرنے کے بعد آٹھویں جماعت میں برن ہال سکول ایبٹ آباد سے حاصل کی تین سال کے بعد وہ واپس آئے اور کراچی گرامر اسکول اور سینٹ پیٹرک ہائی اسکول کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی انہوں نے کچھ عرصہ سندھ آرٹس کالج کراچی میں بھی اپنی علمی پیاس بھجائی 1968 میں گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی سے بی اے کی ڈگری مکمل کی۔ مستی خان نے 1960 کی دہائی میں ایک طالب علم کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیاتھا وہ سندھ آرٹس کالج کراچی میں زیر تعلیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شامل ہوئے اور بلوچ قوم پرست بن گئے انہوںنے بلوچ مارکسی رہنما لال بخش رند کے ساتھ کام کیا جنہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو ترقی پسند سیاسی تحریک میں تبدیل کیا یوسف مستی خان نے لال بخش رند کے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) میں شمولیت اختیار کی اور لیاری کی بہت سی مثبت روایات کا مشاہدہ کیااور سیکڑوں کم مراعات یافتہ بچوں کے لیے گلیوں میں شام کے اسکولوں کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی نے لیاری میں سیاسی بیداری بلوچ ادب اور ثقافت کو فروغ دینے میں مدد کی شیرباز خان مزاری نے جب 1975 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کے قیام کا اعلان کیا تو مستی خان نے NDP کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر شمولیت اختیار کی اور بعد میں NDP (کراچی) کے صدر منتخب ہوئے یوسف مستی خان نے ضیاءکے دور حکومت کی مخالفت کے لیے 6 فروری 1981 کو تشکیل دی گئی تحریک برائے بحالی جمہوریت (MRD) کے نام سے کثیر الجماعتی اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کی 1989 میں غوث بخش بزنجو کی موت کے بعد مستی خان کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی نے عوامی جمہوری پارٹی میں ضم ہو کر نیشنل ورکرز پارٹی (پاکستان) بنائی تو مستی خان نے نیشنل ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں یوسف مستی خان نے ورکرز پارٹی پاکستان کے نائب صدر کے طور پربھی خدمات انجام دیں سندھ پروگریسو کمیٹی (SPC) کا حصہ تھے، جس میں ورکرز پارٹی، لیبر پارٹی، عوامی پارٹی اور دیگر بائیں بازو اور قوم پرست جماعتیں شامل تھیں یوسف مستی خان سندھ بچا¶ تحریک کا بھی حصہ تھے 2012 میں عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل کے وقت مستی خان اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن تھے 2016 میں مستی خان کو پارٹی کا سینئر نائب صدر منتخب کیا گیا یکم دسمبر 2018 کو پارٹی کے دوسرے صدر کی موت کے بعد یوسف مستی خان کو AWP کا تیسرا صدرمنتخب کرلیا گیا AWP کے صدر کے طور پر وہ زمینوں پر قبضے ، زمین کی اصلاحات کے مسئلے،ہا¶سنگ بحران، خواتین کے حقوق،طلباءکے حقوق اور جبری مسائل پر آواز بلند کرتے رہے دسمبر 2021 میں گرفتار کرکے غداری کا الزام عائد کیا گیا ۔ اے ڈبلیو پی کی لاہور میں ہونے والی تیسری مرکزی کانگریس میں ایک بار پھر منتخب ہوگئے جو 12-13 مارچ 2022 کو لاہور میں ہوئی تھی یوسف مستی خان نے سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کی سربراہی بھی کی جو 2015 میں زمینوں پر قبضے کے خلاف بنائی گئی تھی یوسف مستی خان نے کراچی میں مقیم بلوچ متحدہ محاذ (BMM) کے مرکزی رہنما کے طور پر بھی خدمات انجام دیں یوسف مستی خان کو یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے پہلے کنوینر کے طور پربھی منتخب کیا گیا تھا جو کہ جون 2022 میں اسلام آباد میں قائم بائیں بازو کی جھکا¶ رکھنے والی جماعتوں کا اتحاد تھا مستی خان جگر کے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد 29 ستمبر 2022 کو 74 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے