سندھ کے روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ شاہ شہید المعروف سورہ بادشاہ، یعنی بہادر بادشاہ، حر تحریک کے بانی تھے۔ انہوں 1930ء تا1943ءمیں سندھ پر قابض انگریزوں کے خلاف ایک ذبردست مزاحمتی حر تحریک چلائی تھی۔ ان کا شجرہ نصب اس طرح ہے کہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی بن پیر شاہ مردان اوّل بن پیر حزب اللہ شاہ بن پیر سید علی گوہر شاہ اصغر بن پیر سید صبغت اللہ اوّل بن امام العارفین آفتاب بن پیر سید محمد راشد شاہ المعروف پیر سائیں روضے دھنی۔ پیر صبغت اللہ شاہ شہید 23صفر1327ھ بمطابق1909ءکو درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارو، پیر جو گوٹھ، ضلع خیر پور میریس سندھ، شمس العلماءالمعروف شاہ مردان شاہ راشد المعروف پیر صاحب پگارہ پنجم کی حویلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب”پگ دھنی“ یعنی پگڑی والا ہے۔ آپ اپنے والد پیر صاحب پگارہ پنجم کے وصال 7 ربیع اوّل بمطابق9 نومبر1921ءکے بعد پیر صبغت اللہ، فقط بارہ سال کی عمر میں مسند نشین ہو کر پیر ساحب پگارہ ششم کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ آپ 23 سال تک گدی نشین رہے۔ آپ نے خانقاہ شریف میں اپنے والد ماجد پیر مرشد کی تربیت میں پروان چڑھے۔ مسند نشینی کے بعد بھی مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ حافظ خدا بخش سومرو اور مولانا امام بخش ان کے مشہور اساتذہ ہیں۔ پیر صاحب اپنی قابلیت کی وجہ سے پیر پگارہ، صاحب دستار،یعنی پگ دھنی، امام انقلاب، سوریہ بادشاہ، شہید بادشاہ، بطل حریت اور مجاہد اعظم کے القابوں سے مشہور ہوئے۔ آپ شریعت مطہرہ کی پابندی، حقوق العباد کی پاسداری، جذبہ خدمت خلق، ذکر و فکر، شجاعت، ہمت مرداں، عسکری فکر سے سرشار ی، آداب جہاد سے بیداری، ذہانت کی بلندی، درویشی، بردباری، نظم و ضبط، تنطیم سازی، توکل اللہ، جہد ومسلسل، فہم و فراست ایمانی سے سرشار تھے۔ اُس دور میں آپ کے پاس اسلحہ، جدید ہتھیار،موٹر گاڑیاں سبھی کچھ تھا۔ اس مشینری کی خرابی درست کرنے کی مہارت بھی ان کے پاس تھی۔حر مجاہدین کو بھی اس کی تربیت دی تھی۔ان کے حر مجاہدین صوم و صلوات کے پانبد تھے۔ موسیقی کے استعمال پر پابندی تھی۔ ان کی جماعت کے افراد عورتوں والے رنگین کپڑے نہیں پہنتے تھے۔ ان کو نگے سر رہنے سے روکتے تھے۔ سنت رسول کرنے کے تاکید کرتے تھے۔ ہمیشہ پاکیزگی سے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ عبادت کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔ جھوٹ بولنے سے منع کرتے تھے۔ منشیات سے پر ہیز کرنے کا کہتے تھے۔ شرافت بردباری، حق گوئی، نیک نہتی اور اس قسم کی تمام اسلامی اقدار کے اپنانے کی تلقین کرتے تھے۔ انگریزوں نے سندھ کے حکمرانوں تالپروں کو ایک سازش سے جنگ میں شکست دے کر سندھ پر قابض ہو گئے تھے۔پھر پیر پگارو نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ کی تھی۔ پیر پگارو نے سندھ کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے حروں کی تحریک، یعنی سرفروشوںکی جماعت بنائی تھی۔ اس وقت سے پیر پگارو کے مرید حر کہلاتے ہیں۔حروں نے پیر پگارو کی کمانڈ میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی لڑی تھی۔انگریزوں نے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے ،آزادی کی جنگ لڑنے والوں حروں کے سخت جانی نقصان پہنچایا۔لاتعداد حروں کو بے دردگی سے قتل کیا۔ لیکن قدرت نے سید صبغت اللہ شاہ شہید کی زندگی کے پانچ ہی سال بعد انگریز وںکا اقتدار سندھ کیا، پورے برصغیر سے ختم ہو گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سرکردگی میں انگریزوں اور متعصب ہنددﺅں کو شکست فاش ہوئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ کہا جاتا تھا کہ انگریز کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا مگر پھر جب اللہ کے حکم سے برصغیر اور دنیا سے انگریز کی سلطنت ختم ہو کر برطانیہ تک سکڑ گئی، اور برطانیہ میں سورج طلاع ہی نہیں ہوتا۔پیر پگارو کی تحریک آزدی سندھ کا نام” حر تحریک“ ہے۔ اس تحریک کا پر جوش نعرہ تھا”بھیج پگارہ“ اس آزادی کی تحریک کے دومرکز تھے۔ ایک خانقاہ راشدیہ اور دوسرا پیر پگارو جو گوٹھ، ضلع خیر پور۔ حر مجاہدین نے پورے سندھ میں انگریز کا جینا حرام کر دیا تھا۔ پیر پگارہ کے دور میں سید احمد شاہ بریلوی شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے مجاہدین کا قافلہ سکھوں سے لڑنے کے لیے جب اُس زمانے میںصوبہ سرحد( موجودہ خیبر پختون خواہ) جاتے ہوئے سندھ میں داخل ہوا تو پیر پگارو نے اسلامی روایات پر عمل کرتے ہوئے بھاری امداد اور اپنے حر مجاہد بھی دیے تھے۔ اس سے قبل تالپوروں سے سید احمد شاہ شہید بریلوی نے مدد مانگی تھی۔ مگر نادانی میں تالپوروں نے سید احمد شہید کو انگریزوں کا ساتھی سمجھ کر مدد نہیں کی تھی۔ انگریزوں نے جنگ آزادی سندھ لڑنے والے حر مجاہد پیر پگارو کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد انگریز حکمرانوں نے کئی ایجنٹ پیر پگارو کے پاس بھیجے کہ وہ معافی مانگ لے تو اس کو آزاد کر دیا جائے۔ مرد حر نے جواب دیا جو تاریخ میں سہنری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔” آپ نے فرمایا شہادت ہمارا تاج ہے۔ اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہماری عبادت ہے۔ ہم نے صرف آزادی کو چاہا یہ کوئی جرم نہیں۔ ظالم سے معافی نہیں مانگ سکتے۔ ہم صرف اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں“ گزنگ کا بنگلہ عرف پیر صاحب کا بنگلہ سانگھڑ سندھ میں جب ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا ،تو ملٹری کورٹ میں آپ نے بیزروی اور بے رغبتی کا اظہار کیا، جو حریت پسندوں اور مجاہدین کے شان و شان ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالنا پسند کیا۔ لیکن کافر کی غلامی اور جبر سے معافی طلب کرنے کو ہر گز گوار نہ کیا۔ بغاوت کے الزام میں جارج ششم کے نمائندے نے موت کی سزا مقرر کی۔ بلآخر1943ءکو فجر کے وقت سینٹرل جیل حیدر آباد میں مرد حر کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔پیر پگارو کی شروع کردہ حر تحریک اب بھی زندہ ہے۔ موجودہ پیر پگارونے پاکستان میں منعقد ہونے 8 فروری والے جعلی الیکشن کے خلاف اسی حیدر آباد میں جی ڈی اے کے مظاہرے میں لاکھوں حر وں کو جمع کرکے اپنی قوت کا مظاہرہ کر کے ثابت کیا کہ روحانی تحرکیں زندہ رہتی ہیں۔ ان کو کوئی بھی ختم نہیں کر سکتا۔