گزشتہ سے پیوستہ
ایم ایم اے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے باوجود مشرف کے صدارتی الیکشن میں مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد اور حنیف عباسی سمیت ووٹ ڈالنے آگئی تھی۔یہ وہی ایم ایم اے تھی جس میں مولانا ساجد نقوی فضل الرحمن کے قریبی ساتھی تھے۔یہ الگ بات ہے کہ آج مجلس وحدت المسلمین اور تحریک انصاف کے اتحاد پر مولانا کی جماعت والے ایک شور برپا کیے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے، غیر حاضر رہنا پسند کیا تھا۔ پرویز مشرف کے اس وقت کے سب سے بڑے ق لیگی ناقد، ہمارے دوست رﺅف کلاسرا کے فیورٹ اسحاق خاکوانی تمام تر تحفظات کے باوجود، پرویز مشرف کو ووٹ ڈال آئے تھے۔قلم کار نے خاکوانی صاحب کو اس پر کہا کہ آپ کا ضمیر مطمئن ہے۔ اس سے قبل کہ وہ بولتے، مرحوم سید سعود ساحر نے جملہ اچھال دیا ۔ منے آج ان کا ضمیر چھٹی پر ہے۔ آج وہ بڑے انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ سید سعود ساحر کے جملے نے اس روز ان کی حالت پتلی کر دی تھی۔مولانا نے کہا کہ انھیں بین الاقوامی قوتوں نے ہرایا۔ جنہیں میرا دورہ افغانستان پسند نہیں آیا۔صحافیوں نے کہا کہ پھر تو آپ اور عمران خان، ایک جیساموقف رکھتے ہیں۔ مولانا نے پھر تحریک انصاف کے لئے ونڈو کھول دی۔قارئین!مولانا فضل الرحمن اپنے سیاسی کارڈز، بڑے کمال طریقے سے کھیل رہے ہیں۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ، پی ڈی ایم، زرداری سے فاصلہ بھی اختیار کیا ہے۔ جبکہ انھیں انگیز بھی رکھا ہے۔ انھوں نے طویل مشاورتی کیلنڈر جاری کرکے، وقت بھی حاصل کیا ہے۔ اور ساتھ ہی وہ احتجاج میں بھی شامل ہونگے۔اب جبکہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت، احتجاج کے لئے نکل آئی ہے۔ ایسے میں ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا مشکوک ترین مینڈیٹ، مولانا جیسی ، سیاسی بیساکھیوں اور مشاورت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اور اگر مولانا، حکومتی کشتی میں سوار نہ ہوئے تو یہ ہچکولے کھاتی رہے گی۔ یہ سوچ اور وقت سے پہلے ڈوب جائے گی ۔ ظاہر ہے، ہر سیاسی ڈیل کی قیمت ہوتی ہے۔ میمن کہتے ہیں کوئی بھی چیز فری میں نہیں ہوتی۔ مولانا کا تعلق تو پٹھانوں کے ناصر قبیلے سے ہے۔ جبکہ انکی میمنوں سے بھی اچھی دوستی ہے۔ آپ ہی سوچ لیں۔ وہ ہر چیز سود سمیت وصول کریں گے۔آخر، خوشحالی کا حق، ان کی جماعت اور رہنماوں کو بھی ہے۔ بڑے کنسٹرکشن کے ٹھیکے نہ سہی، وزن کرنے والے کانٹوں کے ٹھیکے ہی سہی۔ایک ایسے وقت میں، جب، میاں نواز شریف نے عارضی سیاسی کنارہ کشی کا مبینہ کارڈ کھیلا ہے۔ وہاں مولانا جیسے سمجھدار ساتھی کی انھیں بھی ضرورت ہے۔ اگر باپ، بیٹا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ تو باپ، بیٹی بھی بن سکتے ہیں۔ یہ کام تو پھر مولاناہی کروا سکتے ہیں۔صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان بننا، مولانا فضل الرحمن کا پرانا خواب ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کبھی حافظ حسین احمد نے انہیں ازراہ تفنن کہا تھا کہ مولانا اگر پورا گاوں بھی مر جائے آپ تب بھی چوھدری نہیں بنیں گے۔مولانا نے اس روز یہ وار ہنستے ہوئے برداشت کیا تھا۔بعد ازاں انہوں نے حافظ حسین احمد سے اس کی پوری پوری قیمت وصول کی۔حافظ حسین احمد ایک عرصہ زیر عتاب رہے لیکن اج کل سنا ہے پھر سے ان کی قربت ہی قربت ہے۔مولانا فضل الرحمن سیاسی لین دین کے چمپئن ہیں۔ زرداری، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ مولانا کے پاس پھنس چکی ہے ۔ پاکستان کی صدارت اعلی یا بلوچستان کی وزارت اعلیٰ لئے، بغیر شاید ہی مولانا، ان کی جان چھوڑیں۔ اسٹیبلشمنٹ، ن اور پی۔ پی کو بہرحال مولانا کو بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ وگرنہ ان کی سیاسینیا بیچ منجدھار ڈوبے گی۔سیاسی شطرنج کی بساط پر، پی ٹی آئی کو مولانا سے کچھ سیکھنا چاہئے۔وہ مولانا سے ہاتھ ملائیں۔ مولانا، حکومتی اتحاد کو دن میں تارے دکھا دیں گے۔ عمران اور پی ٹی آئی کو چاہئے۔ وہ اب سیاسی ہو ہی جائیں۔ وہ مولانا کو انگیج کریں۔جیسے مولانا ان کو انگیج کرنا چاہ رہی ہیں۔یہی سیاست ہوتی ہے ۔ عمران خان کو مولانا، قوم پرستوں، جی۔ ڈی۔ اے، جماعت اسلامی، تحریک لبیک کے ساتھ بیٹھنے، حتی کہ نیا سیاسی اتحاد بنانے پر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ سیاست سولو فلائیٹ کا نام نہیں۔سیاست جذبات نہیں، واردات کا نام ہے۔ جیسے کہ زرداری اور ن نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر سفید دن میں واردات ڈالی ہے ۔ اور اس پر شرمندہ بھی نہیں۔سیاست میں دشمنوں کے ساتھ ساتھ، پریکٹیکل دوست بھی ضروری ہوتے ہیں۔ قلم کار کو 16اکتوبر 1999کو انٹرویو دیتے ہوئے نوابزادہ نصر اللہ خان نے کہا تھا کہ اگر فوج نے آنا ہے تو وردی اتار کے آئے۔آج یہی بات مولانا فضل الرحمن شدت سے کر رہے ہیں۔تحریک انصاف کے غیر سیاسیوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اور پھر مولانا فضل الرحمن جیسا دشمن،جس سے سب پناہ مانگتے ہوں ۔ موقع ملے تو اسے فوری دوست بنا لینا چاہیے ۔ جیسے اسٹیبلشمنٹ زرداری اور نواز شریف نے بنایا ۔ 2002سے لیکر 2023 تک کی یہی کہانی ہے اور یہی سچ ہے۔
مکمل سچفرد قائم، ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
(علامہ اقبال)
کالم
پی ٹی آئی مولانا کا ہاتھ تھام لے
- by web desk
- فروری 17, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 278 Views
- 10 مہینے ago