کالم

چیف جسٹس آف پاکستان۔۔۔!

khalid-khan

نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ26اکتوبر1959ءکو پشین میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ گرائمر سکول سے حاصل کی۔1981ءمیں لندن سے بی اے آنرزکیا اور قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ نے1983ءسے وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ آپ سندھ ہائی کورٹ بار اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کے رکن اور سپریم کورٹ بار کے تاحیات رکن رہے ۔ آپ 2009ءسے2014ءتک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔آپ نے 5ستمبر2014ءکوسپریم کورٹ کا بطور جج حلف اٹھایا تھا۔نئے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ مسلم لیگ بلوچستان کے پہلے صدر تھے اورقائد اعظم محمد علی جناح سے قربت حاصل تھی ۔جب بلوچستان کے عوام کی رائے معلوم کرنے کےلئے کمیشن بنایا گیا تو قاضی محمد عیسیٰ اس کے رکن تھے۔قاضی محمد عیسیٰ برازیل میں پاکستان کے پہلے سفیر تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فیض عیسیٰ کے پڑدادا قاضی جلال الدین افغانستان کے صوبے قندہار کے تاحیات جج تھے اور ان کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے تھا۔ ان کوبرطانوی راج کے خلاف بغاوت پر ملک بدر کیا گیا تھا۔ بعدازاں انیسویں صدی کے شروع میں پشین میں آکر آباد ہوئے۔قاضی جلال الدین کی اولاد نے قاضی کے لقب کو اپنے ساتھ لگائے رکھا۔قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیراعظم بھی رہے۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ "ماس میڈیا لازریگولیشن ان پاکستان” اور "بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ” دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ29ویں چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیںاورنیک تمناﺅں کا اظہار کرتے ہیں۔ہم چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے گذارش بھی کرتے ہیں کہ آپ اور ہمارے بزرگوں نے وطن عزیز پاکستان کےلئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں اور یہ برصغیر پاک وہند میں یہ ریاست محض اسلام کے نام پر معرض وجود میں لایا گیا۔یہ ملک عوام کی طویل جدوجہد سے آزاد ہوا، وطن عزیز کےلئے لاکھوں خاندانوں نے اپنے گھروں اور آبائی علاقے کو چھوڑا، ہجرت کے دوران ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے، ہزاروں افراد مضروب ہوئے، خواتین بیواہ ہوئیں، خواتین کی عصمت دری ہوئی ، لوگ بیمار ہوئے، لوگوں نے بھوک و پیاس اور جانی ومالی نقصان کو برداشت کیا،یہ سب کچھ لوگوں نے محض وطن عزیز پاکستان کےلئے برداشت کیا ۔ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں مساوات اور انصاف ہوگالیکن انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں مساوات اور انصاف کا فقدان ہے ۔ (1)ایک غریب شخص پٹرول ، ڈیزل ، بجلی ، گیس ، مکان، علاج، ٹریول، گاڑی سمیت سب کچھ اپنی جیب سے خرچ کرتا ہے جبکہ اشرافیہ سب کچھ غریب عوام کے ٹیکسوں پر بالکل فری حاصل کرتے ہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟ سکیل نمبر ایک کاملازم ہر چیز اپنی جیب سے خریدتا ہے جبکہ سکیل نمبر17سے سکیل22کے ملازمین کو بجلی ، گیس ، پٹرول ، گاڑی ،ٹیلی فون سمیت ہر چیز مفت حاصل کیوں ہے؟ اور بیگمات سرکاری گاڑیوں میںعوام کے خون پسینے کی رقوم سے شاپنگ اور سیر سپاٹے کرتی رہتی ہیں۔یہ ظلم نہیں ہے تو اور کیا؟ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں جبکہ غریب عوام کے ٹیکسوں پر اشرافیہ عیاشیاں کررہی ہے، یہ کیسا انصاف ہے؟چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب! عوام کے ٹیکسوں پر بلاتفریق فری بجلی، گیس ، پٹرول ، سرکاری گاڑی، فری سرکاری عمرہ وحج بند کرنے کےلئے فیصلہ کریں تاکہ آئندہ کےلئے کسی کو فری بجلی ، گیس ، پٹرول ،گاڑی وغیرہ پر مکمل پابندی ہو ۔ (2)وطن عزیز پاکستان میں زرعی زمینوں پر ہاﺅسنگ اسکیمیں بنائی جارہی ہیں جس سے لاکھوں ایکڑ زرخیز زرعی زمینوں کو ہاوسنگ اسکیموں کے بھینٹ چڑھایا گیا ، پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس برآمد کررہاہے اور سالانہ اربوں ڈالرز صرف کررہا ہے۔ملک میں زرعی زمینوں پر ہاﺅسنگ اسکیمیں بنانے پر مکمل پابندی لگائی جائے، ہاﺅسنگ اسیکموں کو ختم کرکے وہاں پر پھر سے فصلیں کاشت کی جائیں۔(3)اہم پوسٹوں پر کام کرنےوالے افراد ریٹائرمنٹ کے بعد ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ، یہ انتہائی تشویشناک ہے،ان افراد کی مراعات ختم کی جائیں اوران کو وطن واپس لایا جائے ۔ اہم پوسٹوں پر کام کرنے والوں ،ان کی اولاد اور فیملی کے افراد کو پاکستان سے باہر رہنے کی اجازت نہ ہو۔جن لوگوں نے پاکستان میں لوٹ مار کی اور باہر جائےدادیں خریدیں،ان لٹیروں کو دولت سمیت واپس لانے کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔(4)پاکستان میں کافی سارے سیاست دان بزنس کرتے ہیں، وہ حکومت میں آکر ادویات ، چینی ، آٹا، چکن ، دودھ اور دیگر اشیاءمہنگی کرتے ہیں،عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں،لہذاپاکستان میں بزنس کرنے والی فیملیز اور ان کے رشتے داروں پر سیاست کرنے پرمکمل پابندی ہونی چاہیے۔ (5) سیاست سے ریٹائرمنٹ کی بھی عمر ہونی چاہیے لہٰذاساٹھ پینسٹھ سال کی عمر کے بعد سیاست کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ (6) ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔وطن عزیز پاکستان میں لاکھوں جوان ڈگریاں لیے روزگار کی تلاش میں دربدر پھر رہے ہیں ،ان کو میرٹ پر سروس نہیں دی جارہی ہے جبکہ بوڑھوں کو دوبارہ سروس دے رہے ہیں۔بوڑھوں کو ریٹائرمنٹ کے بعدپوتوں اور پوتیوں کے ساتھ وقت گذارنا چاہیے اور ریٹائرمنٹ کی زندگی انجوائے کرنی چاہیے جبکہ جوانوں کو کام کرنے دینا چاہیے۔ (7)بعض ادارے اور محکمے ملازمت کےلئے اشتہارات دیتے ہیں اور درخواست کے ساتھ ٹیسٹ فیس بھی رکھتے ہیں، سیٹیں محدود ہوتی ہیں لیکن ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں نوجوان اپلائی کرتے ہیں تو اس طرح وہ بےروزگار نوجوانوں سے کروڑ وں اربوں روپے بٹورلیتے ہیں، نوجوان ویسے بھی بےروزگاری کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں تو اس طرح بے روزگار وں کو ٹیسٹ فیس کے نام پر مزید مالی طور پر پریشان کرنا ستم ہے، لہذا کوئی ادارہ یا محکمہ بےروزگاروں سے ٹیسٹ وغیرہ کے نام پر فیس نہ لے اور اس پر پابندی ہونی چاہیے۔امید ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور وکلاءبرادری درج بالا گزارشات پر غور کریں گے اور اس کےلئے لائحہ عمل اختیار کرینگے ۔ قارئین کرام!وطن عزیز پاکستان کےلئے وکلاءنے طویل جدوجہد کی، بانی پاکستان قائداعظم بھی وکیل تھے،چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے بزرگوں کی بھی پاکستان کےلئے خدمات قابل تعریف ہیں،میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور وکلاءبرادری سے گزارش کرتا ہوں کہ وطن عزیز پاکستان کو مافیاز کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں بلکہ وطن عزیز کو مافیاز سے پاک کرنے کےلئے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائیں۔ پاکستانی عوام چیف جسٹس صاحب اور وکلاءبرادری کے شانہ بشانہ ہیں۔قوی امید ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور وکلاءبرادری کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی ، پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنائیں گے اور عوام سکھ کا سانس لے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے