کالم

چینی قبضہ،بھارت مشکل میں

چین کی وزارت خارجہ نے مودی سرکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اروناچل پردیش سے ہمیشہ چین کا حصہ رہا ہے جس پر بھارت نے غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارت نے 1987 میں ہمارے علاقے زنگنان پر قبضہ کیا اور اسے نام نہاد اروناچل پردیش کا نام دیکر اپنی ریاست بنائی۔ زنگنان کا انتظام برسوں سے چین کے پاس رہا ہے۔ اس متنازع سرحدی تقسیم کو قبول کرنے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔ترجمان چینی وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ سرحدی علاقے میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور کارروائیوں پر سخت احتجاج کرتے آئے ہیں۔ اروناچل پردیش کی طرح لداخ کو بھی چین اپنا حصہ مانتا ہے اور مودی سرکار کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ کشمیر کو جموں کمشیر اور لداخ میں تقسیم کرکے وفاق کا حصہ بنانے پر بھی احتجاج کیا تھا۔ چینی مو¿قف تھا کہ لداخ کو مودی سرکار نے وفاقی اکائی تسلیم کرکے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے کیوں کہ لداخ چین اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے۔جس کے بعد سے چین اور بھارت کے فوجیوں کے درمیان لداخ کی سرحد پر کئی بار جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن میں دونوں اطراف کے متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔بھارت اروناچل پردیش کو اپنا اٹوٹ حصہ قرار دیتا ہے۔چین اس علاقے کو سینگ نان کہتے ہوئے اپنا خطہ ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سال 2020 کے بعد سے کشیدگی بڑھی ہے۔ بھارت نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے حالیہ دورے پر چین کے اعتراض کو مسترد کردیا ہے۔ چین اس علاقے کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس کا خطہ ہے۔مودی کے دورے پر بیجنگ کی جانب سے سفارتی سطح پر احتجاج کے ایک روز بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا کہنا تھا کہ چین کے اعتراضات "اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ حصہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔”وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں ہمالیائی ریاست کا دورے کے دوران چار ہزار میٹر کی بلندی پر تعمیر کی گئی دو لین والی سرنگ کا افتتاح کیا تھا۔اروناچل پردیش میں نئی تعمیر کردہ سرنگ سرحدی ریاست میں فوجیوں اور فوجی سازو سامان کی نقل و حرکت میں سہولت دیگی ۔نریندر مودی نے اپنے دورے کے دوران سڑکوں کی ترقی اور بجلی کی پیداوار سمیت کئی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تھا ۔ بھارت ہمالیائی خطے میں سڑکوں اور پلوں جیسے کئی دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو ایسے وقت تیزی سے مکمل کر رہا ہے جب چین کے ساتھ اس کی 3500 کلو میٹر طویل سرحد پر کشیدگی برقرار ہے ۔چین ماضی میں بھی بھارتی رہنماو¿ں کے اروناچل پردیش کے دوروں پر اعتراض کرتا آیا ہے ۔ گزشتہ برس اگست میں بھارت نے ان رپورٹس پر بیجنگ سے احتجاج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چین نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارتی ریاست کو چین کے علاقے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات 2020 میں لداخ میں ہونےوالی سرحدی جھڑپ کے بعد سے چھ دہائیوں کی سب سے کم سطح پر ہیں۔ اس جھڑپ میں بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اس کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک نے اپنی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا تھا جن کے پاس لڑاکا طیارے، آرٹلری اور ٹینکس بھی موجود تھے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فریقین کی جانب سے کشیدگی کم کرنے کی کوششیں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ سرحد پر فوج چند فرکشن پوائنٹس سے پیچھے ہٹی ہے لیکن اب بھی بڑی تعداد میں اہلکار سرحد پر تعینات ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات بدستور سرد ہیں اور 2020 کے بعد سے فوجیوں کے انخلا پر دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت کے 21 دور ہوئے لیکن فوجیوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔بھارت اس وقت سخت مشکل میں ہے کیونکہ حال ہی میں لداخ پر قبضے کے بعد چین نے اروناچل پردیش کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کی تصدیق بھارتی میڈیا خود کرردہا ہے۔ سوشل میڈیا پرکچھ تصاویر بھی بھارتی میڈیا کی طرف سے شیئر کی گئی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ چینی فوج نے ہماچل پردیش کے ایک حصے پرقبضہ کرلیا ہے۔اگر یہی صورتحال رہی تو لداخ کے بعد دیگر علاقے بھی بہت جلد دوبارہ چین کا حصہ بن جائیں گے ۔ پچھلے دنوں بھارت کو لداخ کے محاذ پرجوشکست ہوئی ہے بھارتی فوج پراس کے خوف کے سائے ابھی باقی تھے کہ ہماچل پردیش کے کچھ حصے پرچینی فوج کے قبضے کی خبرنے بھارتیوں کےاوسان خطا کردیئے ہیں۔اروناچل پردیش کا پرانا نام ”شمال مشرقی سرحدی ایجنسی“ تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ”یونین“ کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں ۔ ان میں ”نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ “ اور”اروناچل ڈریگن فورس“ سرِفہرست ہیں ۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ”ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ“ بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ”برٹش تولا کاو¿نٹی“ تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کےلئے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے