ڈاکٹر ذاکر نائیک1991میں پہلی بار پاکستان آئے ،انہیں تنظیم اسلامی کے بانی مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے ادارے قرآن اکیڈمی لاہورمیں خوش آمدید کہا ، انکا گزرا وقت اور خطابات سب ریکارڈ کا حصہ ہیں، نئی صدی میں ڈاکٹر صاحب کا یہ پہلا دورہ پاکستان تھا وہ اسٹیٹ گسٹ کے طور تشریف لائے۔ اس دورے میں جو واقعات دیکھنے کو ملے اس میں جہاں ان کا قصور ہے وہاں ان کو دعوت دینے والوں کا بھی ہے۔ جھنوں پروگرام ان کی شخصیت کے مطابق نہیں بنایا۔ پہلا پروگرام اسلام آباد کے فائف سٹار ہوٹل میں ہوا یہ ایونٹ میرے عوامی دوست زمرد خان جنھوں نے وکالت، سیاست چھوڑ کر سویٹ ہوم کے یتیم بچے اور بچیوں کی کفالت ، ایجوکیشن کا ذمہ اٹھانا بہتر سمجھا۔پھر انسانی خدمت خلق کو عبادت سمجھ کر اپنایا اور نبھایا بھی۔ آپ بڑی کامیابی سے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ ان تمام بچے بچوں کو اپنے بچے سمجھتے ہیں ۔ تمام بچے انہیں بابا جانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان پر اور ان کے ادارے پر انشااللہ آئندہ لکھا جائے گا۔ ہم نے جب راولپنڈی سے وکالت کا آغاز کیا تو زمرد خان راولپنڈی بار کے جنرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔پھر ملکی سیاست میں ایم این اے بنے۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سویٹ ہوم سے منسلک ہیں۔ان کی خدمات کے صلے میں قومی اعزاز سے انہیں نوازا جا چکا ہے اکثر ادارے میں تقریبات کرتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں جب ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام آباد تشریف لائے تو ایک پروگرام آپ کے اعزاز میں تشکیل دیا۔ اپنے ادارے کی تیرہ چودہ سال کی بچیوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو شیلڈ پیش کرنے جب اسٹیج پر آئیں تو ڈاکٹر صاحب نے ان بچیوں کو دیکھ کر اسٹیج سے ہی اتر گئے کہا میں کسی نا محرم سے شیلڈ نہیں لونگا ۔انکا ایسا رویہ ایسا کہنا یہ ان کی”محدو دسوچ “کا عکاس ہے ۔عورتیں نا محرم ہوتی ہیں جبکہ بچیاں تو معصوم ہوتی ہیں۔ بیٹیوں جیسی ہوتی ہیں۔ یہ بچاری تو تھیں بھی یتیم،ان کے سروں پہ ہاتھ رکھنابھی ثواب ہے۔ یہ سن کر سخت افسوس ہوا۔ میری اس وقع کے بعد زمرد خان سے فون پر بات ہوئی تو آپ اس واقعہ سے سخت افسردہ تھے۔ اس سے ان بچیوں بچاریوں پر کیا گزری ہو گی۔وہ اسی سوچ میں گم سم ہیں۔ اسی طرح کا ایک پروگرام میں طالب علم کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب فرما رہے تھے میرا اپنا گھر کروڑوں کا اور میری اپنی گاڑی کروڑوں کی ہے گھر میں نوکر چاکر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کا ایک اور واقع ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھ پیش آیا ہزاروں شرکا کے سامنے پی آئی اے کے بارے بتا رہے تھے کہ اس کے سی او اے نے میرے سامان کا وزن زیادہ ہونے پر مجھے کہا ہم پچاس فیصد ڈسکاونٹ دے دیں گے۔ جب کہ بھارتی ایر لائن اضافی وزن کا مجھ سے کوئی چارج نہیں کرتی۔ڈاکٹر صاحب ہماری ائرلائن کو برا بھلا کہتے رہے۔ بعد میں پتہ چلا یہ قطر ائرلائن تھی۔جس پر انہوں نے معذرت کی۔ بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارتی مسلمان شہری تھے مگر اب ملائیشیا کے شہری کہلاتے ہیں۔ بھارت ان پر منی لانڈرنگ کا الزام لگاچکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے پیس ٹی وی چینل پر بھارت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب بنگلہ دیش، کنیڈا برطانیہ نے بھی اس چینل پر پابندی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو جس میں جتنا ظرف تھا اتنا اسے پہچانا ۔ کاش انہیں دعوت دینے والے ان کے پروگراموں کو ترتیب دینے سے پہلے سوچ بچار کر لیتے کہ ان کے پروگرام کہاں اورکیسے ہونے چائے تھے۔ جس طرح ٹک ٹاکر پیسے بناتے ہیں ،ایسے ہی یہ اپنے پروگرام کمرشل طریقے سے خود ریکارڈ کرواتے ہیں اور اپنے پیس چینل پر چلواتے ہیں۔یہی ان کا روزگار اور بزنس ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی مذہبی سکالر علما نہیں ہیں۔ یہ ایک قسم کے چلتے پھرتے کمپیوٹر ہیں۔ جو دوسرے مذاہب کی کتب کو ذہن نشین کر چکے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے ک کمپیوٹر کی طرح ان کا دماغ چلتا ہے۔ یاداشت بہت اچھی ہے بابا کرمو ملنے آئے پوچھا کیا اپ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو جانتے ہیں۔ مسکرا کر کہا اگر سچ بولوں تو غصہ تو نہیں کرو گے۔کہا اپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی میں نے پہلے غصہ کیا ہے۔ کہا اس سے پہلے کبھی مذہبی شخصیت کے بارے میں پوچھا بھی تو نہیں۔ پھر کہا پہلے میرا اج کا واقع سن لیں۔ کہا راستے میں کیا دیکھتا ہوں ایک دودھ والا دودھ میں پانی مکس کر رہا تھا۔ دور سے میری نظریں اسی جانب تھیں۔ جب قریب پہنچا تو وہ بیٹھ کر پانی پینے لگا۔ پوچھا خریت تھی اچانک بیٹھ کیوں گئے تھے۔کہنے لگا بیٹھ کر پانی پینا سنت ہے ۔ بابا کرمو نے کہا ڈاکٹر ذاکر میرے نزدیک کوئی مزییی شخصیت نہیں۔ قران کا رٹا لگا رکھا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کیا دیکھ کر اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر انہیں بلایا گیا۔ان کے حافظ کی داد دیتا ہوں ۔ مجھ آج پاکستانی امریکی ڈاکٹر یاد آ رہا ہے جو میرا امریکا میں پڑوسی ہوا کرتا تھا۔ اکثر ملاقات رہتی ایک روز اس نے کراچی سے خیبر تک کے تمام ریلوے اسٹیشنوں کے نام بتا دئے۔ میں نے پوچھا کیا اپ کسی ٹرین کے گارڈ رہ چکے ہیں کہا نہیں۔ میں رٹا مارنے میں کلاس میں مشہور تھا۔ اسی بنیاد میں میں ڈاکٹر بنا۔ لگتا یہیں ہے ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی اس جیسی خوبی کے مالک ہیں۔ جس بنا پر یہ نہ صرف قرآن حافظ ہیں بلکہ عیسائی یہودیوں کی کتابیں بھی انہیں زبانی یاد ہیں ۔ پاکستان میں ڈاکٹر اسرار احمد مذہبی سکالر تھے۔ان سے اچھی یادیں وابستہ ہیں۔جو قرآن کو سمجھتے تھے۔۔ کسی نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مذاہب کے تقابل پر معلومات رکھتے ہیں۔ لیکن حدیث اور فقہ پر ان کی علمیت مسلمہ نہیں لہذا دینی مسائل پر ان کی آرا پر اعتماد ضروری نہیں۔ پاکستان میں ہمیں ان کے پروگرام ہندو سکھ عیسائیوں کے اعزاز میں منعقد کرنی چاہیے تھی اور وہ ان سے سوالات کرتے کلمہ پڑھتے تو خوشی ہوتی۔ لگتا ہے عوام اور حکمران ایمان کے کمزور ہیں۔ ایک فوجی آمر کا زمانہ تھا اس نے اپنے اوپر اسلام کا لبادہ اوڑ رکھا تھا۔ ایک فارنر عورت فونا ظورا اپنے ملک میں مشہور تھی کہ یہ عورت بچے کی ماں بننے والی ہے۔ نماز کے وقت بچہ ماں کے پیٹ میں آواز بلند نماز پڑھاتا ہے۔ اسے اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر یہاں بلایا گیا۔ اس کو سامنے لٹا کر لوگ نمازیں پڑھتے رہے لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد اس نے جو پیٹ میں ٹیب لگا رکھی تھی اس کے سیل کمزور پڑ گئے جس کی وجہ سے اس کا ڈرامہ بے نقاب ہوگیا۔ ہم کیسے مسلمان ہیں ہم نبی پاک کی بے حرمتی پر دوسروں کو مار دیتے ہیں اور خود نبی پاک کی سنت پر عمل کرتے نہیں۔جبکہ نبی کریمﷺ جب جنگ میں زخمی ہوئے تو کہا گیا کہ ان زخمی کرنے والوں کو بد دعا دیں ۔ آپ نے کہا بد دعا نہیں دعا کرتے ہیں کہ سدھر جائیں۔ نبی کریم ﷺ جس گلی سے گزرتے تھے ایک بڑھیا روز آپ ﷺ گھر کا کھوڑا کرکٹ ڈالا کرتی ۔ کبھی کسی نے اس سے لڑائی نہ کی آپ بھی خاموش رہتے۔جب دو تین دن اس بوڑھی نے کوڑا نہیں پھینکا تو آپ نے پوچھا کیا وجہ ہے ، پتہ چلا کی وہ بیمار ہے۔ آپ اس کی تیمارداری کے لیے اس کے گھر گئی۔ آپکے حسن سلوک کو دیکھ کر اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئی۔ ہم نبیﷺ کے نام پر اپنے دشمنوں پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں مار دیتے ہیں۔ جب کہ نبیﷺ تو ہمارے ایسے نہ تھے۔ درگزر کرتے تھے ہم نبی کی سنت پر عمل کرنا شروع کر دیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ اگر نبی کی سنت پر عمل نہیں کرتے تو ہماری تمام عبادات یعنی نمازیں، عمرے حج روزے اس زات کو قبول نہیں ۔ اسلام نام ہے ایمانداری، سچ بولنے، ملاوٹ نہ کرنے، بزرگوں کے ساتھ احترام سے پیش آنے صحیح ناپ تول کرنے کا۔ یہ نظام مسلم ممالک میں نہیں غیر مسلم ممالک میں ہے۔یعنی اسلام ان ممالک میں ہے اور مسلمان یہاں ہیں ۔یہی وجہ ہے ہم ترکھ گل سڑ رہے ہیں اور وہ ممالک ترقی کر رہے ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے کام سے غیرمسلم کو مسلم کررہے ہیں یہی ان کا بڑا کارنامہ ہے اور ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ ہم ان میں عالم دین علما کرام صوفیا کرام کی خوبیاں تلاش کرتے رہے ۔لہٰذا قصور ڈاکٹر ذاکر نائیک کا نہیں ہمارا ہے جو انہیں سمجھ نہیں سکے۔ اگر اقلیتوں کو اکٹھا کرتے انہیں سوال جواب کا موقع فراہم کرتے تو ان کی پاکستان آمد کے بہتر نتائج دیکھنے کو ملتے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت ہم سب کو سنت نبوی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین