پاک فوج کی حالیہ پریس کانفرنس میں قوم کی توجہ انتہائی اہم باتوں کی جانب دلانے کی کوشش کی گئی ہے جنہیں ہر محب وطن پاکستانی کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے،ضرورت اس لئے بھی بڑھ چکی ہے کہ ملکی حالات کسی بھی اندرونی الجھاﺅ کی اجازت نہیں دے سکتے،معاشی تنزلی اور سیاسی افراتفری نے عوام کو مسائل کی دلدل میں گردن تک دھنسا دیا ہے،حالات کا تقاضا ہے کہ ہر پاکستانی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو اولین ترجیح دے،سیاسی مقاصد،گروہی مفادات یا ذاتی دلچسپیوںکو ترجیح دیکر ملک کی بربادی میں اپنا حصہ نہ ڈالے،کیونکہ انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اس کی آڑ لیتے ہوئے ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔مثال کے طور پر جب دہشت گرد یا شدت پسند عناصر پاک فوج پر حملہ آور ہو کر جانی نقصان کا موجب بنتے ہیں تو سوشل میڈیا کے کچھ اکاﺅنٹس پر شہید ہونے والے فوجیوں کا نہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ ان کی ناقابل برداشت حد تک تذلیل بھی کی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ شدت پسندوں یا دہشت گردوں کے ان حملوں کی تعریف یا حمایت بھی کی جاتی ہے، کوئی بھی محب وطن پاکستانی ایسا نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے،زیادہ تر یہ پی ٹی آئی کی آڑ لیکر ہو رہا ہے،ہو سکتا ہے کہ یہ سب ملک دشمن عناصر ہوں یہ تمام اکاﺅنٹس جعلی ہوں لیکن انہوں نے خود کو پی ٹی آئی ورکر کے طور پر ظاہر کیا ہوا ہے کیونکہ پی ٹی آئی اپنے سیاسی مقاصد کےلئے زیادہ تر سخت زبان استعمال میں لاتی ہے حالانکہ تنقید یا اظہار رائے کو مناسب الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے،سوشل میڈیا پر کی جانے والی بہت سی تنقید تو سمجھ سے ہی بالاتر ہوتی ہے اور جو پارٹی قائدین یا جانے پہچانے چہروں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے اس کا سیاق و سباق بھی غیر ضروری طور پر سخت اور مخالفانہ ہی ہوتا ہے جس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے باہمی تلخیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کا سارا خمیازہ بالآخر ملک و قوم کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔دیکھا جائے تو9مئی کے واقعات نے ملک پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں جس کے بعد حالات میں تلخی بڑھتی جارہی ہے،پاک فوج کی جانب سے9مئی کے واقعات پر سخت ردعمل کوئی حیرت انگیز عمل نہیں ہے بلکہ ایک فطرتی عمل ہے،چونکہ 9مئی کی تمام مذموم حرکات پی ٹی آئی کی آڑ میں ہی سرزد ہوئی اس لئے اس کا سارا نزلہ بھی اسی پر گرنا ہے،پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے شہریوں کو ایسے احتجاج یا احتجاج کی آڑ میں ملک دشمن عناصر کو ایسی کاروائیوں کی اجازت نہیں دے سکتا،اور پاک فوج کی جانب سے اسے دہشت گردی سے تعبیر کرنا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ فوج پرحملہ کرنے کےلئے اکسانے کے عمل کو مغرب کے لبرل جمہوری ممالک میں بھی دہشت گردی کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے،یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاک فوج نے اپنی پریس کانفرنس میں ڈیجیٹل دہشتگردی کی اصطلاح استعمال کی اور اس کے سدباب پر زور دیا ہے،اس بات میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ اس سوشل میڈیائی دور میں ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کےلئے سائبر ٹیکنالوجی کا استعمال بھرپورطاقت اور انتہائی ماہرانہ انداز میں کرتے ہیں،ملک مخالف پراپگینڈے کو پھیلانے کےلئے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا استعمال ایک لازمی امر ہے،اس ضمن میں پاکستان کا ازلی دشمن ملک بھارت عالمی سطح پر کئی بار بے نقاب ہو چکا ہے جس کے بعد یہ واضح ہوا کہ بھارت کے مین سٹریم میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک فیک نیوز اور پاکستان مخالف جھوٹا پراپگینڈا کرنے کا ایک مضبوط اور فعال نیٹ ورک قائم ہے اور جو عالمی سطح پر پاکستان مخالف جھوٹی،مبہم خبریں پھیلانے کی ایک فیکٹری ہے۔درحقیقت پاک فوج کی جانب سے ڈیجیٹل دہشتگردی کا اشارہ انہی پاکستان مخالف قوتوں کی جانب ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ کچھ پاکستانی اپنی سیاسی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر غیر دانستہ طور پر انہی پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار دکھائی دیتے ہیںکیونکہ جب سیاسی کارکنان کا موقف حد سے زیادہ سخت ہوگا تو سیاق و سباق میں غیر ضروری،بے معنی اور بلا جواز تنقید بھی شامل ہو جاتی ہے،بات میں بیہودگی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے، حساس اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں،اس عمل سے چونکہ فوج اور عوام کے درمیان رشتے میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اس لئے اس کا بھرپور فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھاتے ہیں اور عالمی سطح پر ان باتوںکو بنیاد بناکر پاکستان مخالف پراپگینڈا پھیلاتے ہیں،اس میں جھوٹ بھی شامل کرلیا جاتا ہے اور فرضی کہانیاں بھی بنالی جاتی ہے جس کے بعد سازشی نظریات کو فروغ دینے کےلئے پوری طاقت سے کام کیا جاتا ہے اور ملک میں اضطرابی کیفیت پیدا کرنے کی زوردار کوشش کی جاتی ہے،یقینی طور پر اس سب کا نقصان پاکستان کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔پاک فوج کی پریس کانفرنس میں اس امر کا اظہار بھی شامل ہے کہ ملک کے سنجیدہ اور حساس معاملات کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے جس کے پیچھے سیاسی مافیا کارفرما ہے جو جھوٹ کی بنیاد پر حساس معاملات کو متنازع بنانے سے بھی گریز نہیں کر رہا،یہ ایک بہت بڑا اور مضبوط مافیا ہے،پریس کانفرنس میں دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کے گھٹ جوڑ کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے،فوج کے مطابق بے نامی پراپرٹیز، سمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار کے ساتھ دہشت گردوں کا نیٹ ورک بھی منسلک ہے اور افغان بارڈر اس کا محور و مرکز ہے جہاں غیرقانونی تجارت کو فروغ دیا جاتا ہے،اس کے سدباب کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے والے عناصر بھی سیاسی لبادہ اڑھے ہوئے ہیں،چمن دھرنا اس کی واضح مثال ہے جہاں کراس بارڈر نقل و حرکت کےلئے پاسپورٹ کی شرط لگانے کی شدید مخالفت کی گئی،دوسری جانب عزم استحکام کو بھی متنازع بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔پاک فوج کی جانب سے ڈیجیٹل دہشت گردی کی نشاندہی اور اس کی روک تھام کی ضرورت پر زور دینا درحقیقت وقت کا اہم ترین تقاضا ہے،ان سنجیدہ مسائل پر سیاست کرنا اور ان کو سیاسی مفادات کےلئے متنازع بنانا کسی صورت بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی اشرافیہ اپنے طرز عمل کو تبدیل کرے،جائز تنقید یا آزادی اظہار رائے کی آڑ میں حدود سے تجاوز نہ کرے،ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے سیاسی اقدامات اٹھائے ، بالخصوص حساس امور کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے،ٹھوس حقائق اور شواہد کے بنا کسی بھی ادارے یا شخصیت پر الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے،اس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر جھوٹی اور بے بنیاد خبروں،بلا جواز الزام تراشیوں،کردار کشی اور ہتک آمیز مواد پوسٹ کرنے والوں کیخلاف قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائیں،اس کا دائرہ کار پولیس تھانوں تک فعال کرنا بہت ضروی ہے کیونکہ اس آفت سے عام عوام بھی متاثر ہو رہی ہے اور اس کے خلاف قانونی اقدامات اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں،ملک میں سائبر کرائم کے سدباب کےلئے مناسب قوانین موجود ہیں صرف ان کا سختی کے ساتھ نفاذ کرنے کی ضرورت ہے۔