کالم

کاش ! مسلمان بھولے سبق کو پھر سے یا دکرلیں

الطاف حسین حالی ؒ کا یہ شعر مسلمانوں کے دلوں پر اپنے تیر سے نشتر لگا رہا۔ پکار پکار کر ان کو قرآن شریف میں بیان کردہ سبق یاد کرا رہا ہے۔”کہ مسلمانوں تم ہی غالب رہو اگر تم مومن ہو“اے کاش !کہ دنیا کے مسلمان اِس بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یا دکریں اور اس پر عمل کریں۔ اس حقیقت کو سمجھیں کہ ان کا رب حیی القیوم زندہ جاوید ہستی ہے۔ اپنے بندوں کے اعمال کو باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ اپنے فیصلے صادر کر رہا ہے۔ مگرمسلمان اپنے دشمن نیوورلڈ آڈر امریکا کی طرف دیکھتے ہیں۔ دولت کی ہوس میںضمیر فروش بنے ہوئے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک وقت آئے جب دشمن میرے امت پر ایسے ٹوٹ پڑھیں گے جیسے کئے دنوں کے بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابیؓ نے پوچھا کی اس وقت کیا امت کی تعداد کم ہو گی ۔ رسول اللہ نے جواب دیانہیں، تعداد میں زیادہ ہو گی۔مگر ان کو وہن کی بیماری لگ جائے گی۔ یعنی دولت کی ہوس اور موت کا خوف۔کیا مسلمان اس وقت وہن کی بیماری میں مبتلا نہیں۔ عرب ممالک پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے دوستیاں کر رہے ہیں۔ عرب ممالک کو یاد رکھنا چاہےے کہ ایٹمی اور میزائل کی قوت رکھنے والا پاکستان ان کا حقیقی پشتی بان ہے۔ بت پرست بھارت نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دولت کی ہوس میں عرب بت شکنوں نے بت پرست ہندوستان کو اپنے ممالک میں بت پرستی کے لیے مندر بنانے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کی پستی کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ ان کی کمزوری پرطنز کرتے دوست نما دشمن امریکا کے لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی تو پیسے کی لالچ میں اپنی ماں تک کو فروخت کر دیتے ہیں۔ڈکٹیٹرپرویز مشرف تو پستی کی کھائی میں اتنا گھرا کہ امریکہ کو چھ سو مسلمان اور مظلومہ امت داکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالر کے حوض فروخت کئے اورڈھٹائی سے اپنی کتاب”سب سے پاکستان“ میں اس کا ذکر بھی کیا۔یہی حال دنیاکے مسلمان حکمرانوں کا ہے ۔ وہ اسرائیل جسے اللہ نے قرآن شریف میں اس کی نافرمانیوں کی وجہ سے چارج شیٹ کیاہوا ہے اس کو تسلیم کرنا شروع کیا ہوا ہے۔پاکستان کے مسلمانوں کو اس حدیث کے مفہوم کو یا د رکھناچاہےے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ٹھنڈی ہواکے جھونکے محسوس ہوتے ہیں۔ عرب جو اونٹ اور بکریں چرانے والے تھے۔ جب اللہ کے احکامات مانے اور رسول اللہ کے حکم پر عمل کیا تو دنیا کے اما م اور رہبر بنا دیے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کلمہ” لا الہ الا اللہ“ کے نام پر برعظیم کے مسلمانوں کےلئے پاکستان مانگا تھا۔ کہا تھا کہ ہم کو پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نظام حکومت چلائیں گے۔ اس وعدے پربرعظیم کے مسلمان قائد اعظم ؒ کے جھنڈے تلے جمع ہوئے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت پر عمل کرتے ہوئے، مانگنے والے ،برعظیم کے مسلمانوں کوپاکستان ،مثل مدینہ ریاست طشتری میں رکھ کر پیش کیا۔جب افغانستان کے مسلمانوں نے اپنی ذاتی کمزوریوں کے باوجود جب اللہ کے نام پر جہاد فی سبیل اللہ شروع کیا تو اللہ ان فاقہ کش افغانیوں کے ہاتھوں شیطان کبیر امریکا اور اس کے اڑتالیس اتحادیوں سمیت شکست فاش سے ہم کنار کیا۔پاکستان قوم کے یکجاہونے سے ایک روشن خیال،لبرل اور سیکولر، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسلامی آئین ملا۔ مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان اللہ سے صدق دل سے مانگتا ہے تو اللہ اسے عطا کرتا ہے۔قائداعظمؒ نے برعظیم کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کریں گے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعداس قائد اعظم ؒ نے سید موددیؒ کو کہا کہ وہ ہمیں بتائیں کے پاکستان میں اسلامی کے عملی نظام کی لیے ہم کیا کچھ کریں۔ سید مودودی ؒ نے ریڈیا پاکستان پر اپنی نشری تقریروں پر اسلام کے عمل نفاظ کرلیے حکومت عملی تدبیریں بتائیں۔ جو اب بھی ریڈیوں پاکستان کے ریکارڈ اور کتابی شکل میں موجود ہیں۔ نو مسلم علامہ اسدؒ ، کو ایک” ادارہ ری کنسٹرکٹشن آف اسلامی تھاٹ “بنا کر لگا دیا تھا۔ اس ادارے نے اسلامی آئین، اسلامی معاشیات ، اسلامی جمہوری سیاست ، اسلامی بنگنگ وغیرہ پر کام شروع کر دیا۔ پاکستان اسٹیٹ بنک کے افتتاع پر قائداعظمؒ نے ماہر معا شیات سے کہاتھا کہ بنک کو سود سے پاک اسلامی طریقے پر چلانے کے اقدامات کریں۔ میں خود اس کی نگرانی کروں گا۔ مگر اللہ نے قائد اعظمؒ کو جلد اپنے پاس بلا لیا۔مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد کہا کہ چودہ سو سال پرانی اسلامی نظام حکومت نہیں چل سکتا ۔ شعیہ ، سنی، دیو بندی اہل حدیث کس کا اسلام نافذ کریں ۔اس پرشبیر احمدعثمانیؒ اور سید موددیؒ نے مسلم لیگ حکومت کو ہر مکتبہ فکر کے بتیس علماءکے بائیس متفقہ نقات پیش کیے کہ اس طرح اسلام نافذ ہوسکتا ہے۔مسلم لیگ کے بعد ڈکٹیٹر ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ بنائی۔ اس نے اسلامی نفاذ کے بجائے مسلمانوں کے عالی قوانین ہی کو تبدیل کر دیا۔ کنونش لیگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے اسلام میں اسلامی سوشلزم کا پیوند لگا کر،روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا۔ اس کی پارٹی تین بار اقتدار میں آئی۔ روٹی کپڑا مکان کیا ملتا۔ بینظیر کی حکومت کو کرپشن کی وجہ سے برطرف کیا گیا۔زرداری کے دور میں وہ مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوئے۔پھر نون لیگ کے نواز شریف کو پاکستانیوں تیں مرتبہ اس ملک کو وزیر اعظم منتخب کیا۔قرض مکاﺅ ملک بچاﺅ۔ ایشین ٹائیگر بنانے کے نعرے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ موصوف کرپش میں سزا پانے کے بعد لندن میں علاج کے بہانے بیٹھ کر دشمنوں کے ہاتھوںمیں کھیل رہے ہیں۔ نواز شریف نے بھارت کی چابلوسی میں اعلانیہ قائد اعظم ؒ کی مشن سے غداری کرتے ہوئے لاہور تیرہ اگست2011ءمیں بھارت سے آئے ہوئے دانشوروں کے ایک اجتماع میں کہا کہ ہم مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں ۔ ہمارا ایک ہی کلچر اور ثقافت ہے۔ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔ صرف درمیان میں ایک سرحد کا فرق ہے۔ جبکہ قائد اعظمؒ نے اسی لاہور میں 14 اگست 1940ءمیں فرمایا تھا ۔کہ ہم مسلمان ہنددوں سے علیحدہ قوم ہیں۔ ہمارا کلچر، ہماری ثقافت،ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا ، ہمارامعاشرہ سب کچھ ان سے یکسر مختلف ہے ۔ عمران خان بھی کرپشن فری پاکستان اور مدینہ کی اسلامی ریاست نہ بنا سکا ۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔اس نے پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اب دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ دشست گرد مودی نے کہاتھا کہ گلگت اور بلوچستان ست مجھے علیحدگی پسند وں کی طرف سے مدد لیے فون کال کرہے ہیں۔600 جعلی ویب سائٹس سے پاکستان کےخلاف منفی پروپیگنڈا کرتا رہا ہے۔ ہر کسی بین لاقوامی فورم پر پاکستان کو دشست گرد ملک ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان میں گھس کر کارروائی کی دھمکی دیتا تھا۔ بالا کوٹ پر حملہ کرکے اسکا ثبوث بھی پیش کر چکا ۔ مگر منہ کی کھائی اور پاکستان کے ہوائی جہازوں نے اس کی زیر قبضہ کشمیر میں حملہ کرکے دو جہاز تباہ کیے اورابھی نندن کو گرفتار بھی کیا۔ان حالات میں جب بھارت پاکستان کو ختم کر کے اکھڈ بھارت میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ توکیا پاکستان بلی کی طرح آنکھیں بند کر لے۔ یا ایسی قیادت کو منتخب کرے جو قائد اعظم ؒ کی حقیقی جان نشین ہو۔ جومنتخب ہو کر اسلامی نظام حکومت قائم کرنے میں مخلص ہو۔ جو کرپشن سے پاک ہو۔ جس کی گواہی سپریم کورٹ بھی دے چکی ہو۔ جو بھارت سے پاکستان کو بچانے کا عزم اور رارادہ رکھتی ہو۔ جو پاکستان کو امت مسلمہ کا حقیقی پشتی بان بنانے کی کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ پھر تو پاکستان میں جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے ، جو میدان میں موجود ہے۔ اس لیے ہم پاکستان کے عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کمر باندھ کے میدن میں اُتریں جماعت اسلامی کو اقتدار میں لائیں۔ پھر دیکھیں کی اللہ کی مددکیسے آتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے