کانٹے دار سیاست کا ماحول اپنے عروج پر ہے اسمبلیوں کے اندر تلخی اور باہر عوام کا جینا مشکل ہو رہا ہے 1947سے چلنے والے لوگ ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے جبکہ فارم47والے اپنی اپنی منزلوں کو پہنچ چکے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کی راہوں میں پھول بچھانے کا جھانسہ دیکر کانٹے بچھا دیے پچھلی پی ڈی ایم میں اور اس بار کے موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا تھالیکن اب تو عوام کے کپڑے اترنا شروع ہوچکے ہیں اور ابھی دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ذمہ داری پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے حکمرانوں کا تو علم نہیںلیکن عوام ابھی سے مہنگائی کی چبھن محسوس کرنا شروع کر چکے ہیں ان مشکل حالات ترین حالات میں اگر چند لوگ نہ ہوں تو زندگی میں خوشیوں کا عنصر ہی ختم ہو جائے بات کانٹوں کی ہو رہی ہے تو اس کانٹے کو جس خوبصورتی سے ہمارے ملک کے صف اول کے مزاح نگار ،ادیب ،شاعراور نقاد جناب ڈاکٹرانعام الحق جاوید نے نکالنے کا گر بتایا ہے وہ واقعی لاجواب ہے پچھلے دنوں اسلام آباد سے ڈاکٹر امجد بھٹی صاحب ورلڈ پنجابی کانفرنس کے سلسلہ میں لاہور تشریف لائے تو انہوں نے ٹیلی فون کرکے مجھے بھی ایک جگہ بلوالیا وہاں پر لندن سے آئے ہوئے ادیب جسوندر رتیاں اورعظیم شیکر سے بھی ملاقات ہوئی دونوں ہی اچھے لکھاری اور خوبصورت انسان ہیں لکھنے لکھانے کی بات چل نکلی تو ڈاکٹر امجد بھٹی نے کہا کہ میرے استاد اور پیرو مرشد ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر اس وقت تک خوبصورت ادب تخلیق نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے اندر کے کانٹے کو ختم نہیں کرتا کیونکہ یہی کانٹا اسکے اندر بھی چبھتا رہتا ہے اور اسکی تحریروں میں دوسروں کو بھی اسکی کی چھبن محسوس ہوتی ہے انسان کے اندر نفرت ،بغض ،ریاکاری ،حسد اور منافقت کے یہ کانٹے بعض اوقات اتنے زہریلے بن جاتے ہیں کہ اسے زندگی عذاب لگنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر اسکی تحریروں میں جو زہر شامل ہوتا ہے وہ معاشرے کا بھی ڈس لیتا ہے اس لیے انسان کو زندہ دلی سے زندہ رہتے ہوئے اپنے اندر کے کانٹے کو ختم کرنا ہوگا تب ہی وہ ایک اچھا مزاح نگار،ادیب،شاعر اور قلمکار بن سکتا ہے ڈاکٹر انعام الحق جاوید واقعی ایک خوبصورت اور پیارے انسان ہیں جنہوں نے اپنے اندر بھی ایک خوبصور اور معصوم انسان بٹھا رکھا ہے جو ہر وقت لوگوں کے غم خوشیوں میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جب سے ڈاکٹر صاحب یوٹیوب چینل پر جلوگر ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ تب سے میرا ایک مسئلہ تو حل ہو گیاہے جب بھی کبھی بوریت اور اکتاہٹ محسوس کرتا ہوں تو ڈاکٹر صاحب کی خوبصورت مزاحیہ شاعری سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے اور یہی وہ لوگ ہیںجو عام انسان کی زندگی سے کانٹے نکال کر انہیں پھولوں کی طرح تروتازہ اور ہشاش بشاش رکھنے میںمصروف ہیں رہی بات سیاست کی تو اس میں اب تازگی رہی اور نہ ہی شگفتگی ماحول تلخ ہوتا جارہا ہے ان حالات میں حکومت ایسے لوگوں کو سامنے لائے جو عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہوں مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی بن چکی ہیں اور انہوں نے اپنی کابینہ بھی تشکیل دیدی ہے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے عظمی بخاری کو وزیراطلاعات بنا دیا ہے یہ محکمہ انہی کے مزاج کا ہے اور وہ اسے اچھے طریقے سے چلا بھی لیں گی پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف لاہور کے صحافیوں سے اچھی طرح واقف ہیں بلکہ پنجاب کی صحافت پر انکی گرفت بھی مضبوط ہے وہ حکومتی کاموں کو اچھے طریقے سے عوام تک پہنچا سکیںگی اس میںزیادہ کردار محکمہ ڈی جی پی آر کا بھی ہے اور روبینہ افضل اس وقت جتنا اس کامکو سمجھتی ہیں شائد ہی کوئی اور یہ کامکرسکے سنا ہے کہ اس وقت اسی محکمہ میں ترقی پانے والے دو ڈائریکٹر خود بھی ڈی جی پی آر لگنے کے لیے کوششیں شروع کرچکے ہیں لیکن انکی دال ابھی فی الحال گلنے والی نہیں ہے بلکہ شرمندگی کے سوا کچھ انکے ہاتھ نہیںلگے گا روبینہ افضل اس وقت خوبصورتی سے اس محکمہ کو چلا رہی ہیں اور پنجاب حکومت کو وہ بہت عوامی فلاحی کاموں کو وہ بہت اچھے انداز میں عوام تک پہنچا سکتی ہیں اگر انہیں انکے انداز میںکام کرنے دیا جائے تب ۔پنجاب کابینہ میں بہت سے ایسے وزیر بھی شامل ہیںجو اپنے رویہ سے لوگوں کو مطمئن نہیںکر پائیں گے بلکہ چند دنوں بعد ہی لوگ ان سے تنگ آنا شروع ہوجائیںگے اگر اس کابینہ میں کاشف نوید پنسوتہ جو آزاد حیثیت سے جیت کر مسلم لیگ ن کا حصہ بنے انہیں بھی شامل کرلیا جاتا تو وہ باقی سب سے ہٹ کر اعلی اور اچھا کام کرسکتے تھے ایسے افراد ہی حکومت کا چہرہ ہوتے ہیںجو عوام تک اپنے لیڈر کا پیغام پہنچا کرسکون محسوس کرتے ہیں جو لوگ ٹکٹ پر جیت کر آئے ہیں ان میں اور آزاد جیتنے والوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے آزاد امیدوار لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور انکی باتوں کا عوام پر زیادہ اثر ہوتا ہے اس لیے مریم نواز کو چاہیے کہ کوشف نوید پنسوتہ جیسے خوبصورت لوگوں کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا کر ایک اچھا تاثر قائم کریں جو کانٹے دار سیاست میں کانٹا نکالنے کا ہنر بھی جانتے ہیں آخر میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی ایک خوبصورت مزاحیہ نظم جس شخص کی اوپر کی کمائی نہیں ہوتی ۔
جس شخص کی اوپر کی کمائی نہیں ہوتی
سوسائٹی اسکی کبھی ہائی نہیں ہوتی
تب تک تو بھری بزم میںلگتا ہے معزز
جب تک کہ غزل اس نے سنائی نہیںہوتی
کرتا ہے اسی روز وہ شاپنگ کا تقاضا
جس روز مری جیب میں پائی نہیںہوتی
پولیس کرالیتی ہے ہر چیز برآمد
اس سے بھی کہ جس نے یہ چرائی نہیں ہوتی
کالم
کانٹے دار سیاست اور ڈاکٹر انعام
- by web desk
- مارچ 10, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 407 Views
- 9 مہینے ago