حکومت کو چاہیے کہ کراچی اور لاہور کو بھی جڑنواں شہر قرار دیدے کیونکہ اس وقت دونوں شہروں میں صفائی ستھرائی ،فضائی آلودگی اور قبضہ گروپوں کی صورتحال ایک جیسی ہے سیاسی آلودگی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی نے بھی ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ایک طرف لوٹ مار کے سیاسی نظام نے ہمیں معاشی طور پر مفلوج کررکھا ہے تو دوسری طرف فضائی آلودگی نے ہمیں جسمانی طور پر کمزور اور لاغر کردیا ہے اور ان دونوں حملوں نے ہمیں ذہنی مریض بنا کررکھ دیا ہے پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کو اس وقت فضائی آلودگی نے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ تو بھلا ہو ہماری عدالتوں کا جو ہر عوامی فلاحی کاموں میں ہمیشہ بازی لی جاتی ہیں اب بھی شہر کی گندی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے کمشنر کو شہر میں سموگ ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنے کا حکم دے دیا جسٹس شاہد کریم نے سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کمشنر لاہور سے کہا کہ آپ اس شہر کے مالک ہیں اور شہر کی کیا حالت کر دی ہے شہر کی صورتحال دیکھ کر شرمندگی ہونی چاہیے عدالت نے کمشنر لاہور کو سموگ ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو تاحکم ثانی سیل کردیا جائے عدالت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیدیا اگر ہم شہر قائدکی صورتحال کا جائزہ لیں تو وہاں پر بھی موسم کی تبدیلی سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا، شہرکی ہوا میں آلودگی کی شرح 168 پرٹیکیولیٹ میٹرکی ریکارڈحد عبور کرگئی ہے جو عام انسان کو بیمار کرنے کے لیے کافی ہے ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کا بھی سب کو اندازہ ہے اور پارکوں کا بھی ان دونوں مقامات عام شہریوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ایک صحت کو بچانے کے لیے اور دوسری جگہ اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے لیکن ان دونوں مقامات پر سانس لینا مشکل ہوچکا ہے شہروں کے اندر گرین بیلٹس فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں شہروں کی خوب صورتی میں شان دار انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ گرین بیلٹ ایریاز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں لاہور اورشہر قائد کی خوب صورتی میں بھی گرین بیلٹ اہم کردار رہا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ بھی مافیاز کا ہدف بن گئے ہیں کراچی ماسٹر پلان کے تحت ہر دوہری سڑک کے ساتھ گرین بیلٹ کا ہونا ضروری ہے مگر اس شہر میں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو
نہیں ملتا، 30 سے 40 فی صد گرین بیلٹس پر ریسٹورینٹس اور کار شورومز کا قبضہ ہے جب کہ بقیہ حصوں پر کچرا کنڈیاں اور پتھارے بنے ہوئے ہیں یا یہ گرین بیلٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اس وقت چالیس فی صد سے زائد گرین بیلٹ پر قبضہ مافیا بیٹھی ہوئی ہے جو المیے سے کم نہیں کیونکہ بہت سے گرین ایریاز ناقص منصوبہ بندی اور بد انتظامی کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں شہر میں گھومنے نکلیں تو کئی علاقوں میں گرین بیلٹ کا تو نام و نشان نہیں ملتا البتہ اس کی جگہ کچرا کنڈیاں بدبو اور گندگی پھیلاتے ضرور ملتی ہیں کراچی شہر میں 10 ہزار کلومیٹر تک سڑکوں کا جال ہے جس کے ساتھ 100 فی صد گرین بیلٹ کا لازمی حصہ ہونا چاہیے مگر قبضہ مافیا اور متعلقہ اداروں کی عدم دل چسپی نے ان گرین بیلٹ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے کراچی جو کبھی اپنے معتدل موسم کے لیے مشہور ہوتا تھا اب سخت ترین گرم موسم اور فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہے اس کی بڑی وجہ بڑھتی آبادی، درختوں کی کمی،کنکریٹ سے بنی عمارتیں، دھواں چھوڑتی فیکٹریاں اور گاڑیاں ہیں ہیں ڈی جی پارکس جنید اللہ اس حوالہ سے بہت خوبصورت کا م کررہے ہیں اگر انکی کوششیں اسی طرح جاری رہی تو کراچی میںہریالی نظر آنا شروع ہوجائیگی اور لوگ ماحولیاتی تبدیلی بھی محسوس کرینگے کیونکہ انہوں نے کراچی میں ڈھائی لاکھ پودے لگا دیے ہیں اسی طرح کراچی سے ملتی جلتی صورتحال لاہور کی بھی ہے جہاں قبضہ گروپوں نے گرین بیلٹ سمیت مختلف پارکوں پر بھی قبضے جما رکھے ہیں۔
کالم
کراچی اور لاہور جڑنواں شہر
- by web desk
- نومبر 3, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 337 Views
- 2 سال ago
