کراچی میں 1984سے 1991تک تقریبا ًسات سال میں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ اسی دوران میں نے اپنی تعلیم مکمل کی، ملازمت کی اور شوبز کی دنیا سے منسلک ہوا۔ یہ پرآشوب ہنگاموں اور لسانی قتل و غارت گری کا زمانہ تھا، لیکن اس کے باوجود میرے لئے کراچی کی محبت وسحرانگیزی اور زندگی کی رونقیں ایسی تھیں کہ امریکہ، یورپ، لندن اور مشرقِ وسطی میں کہیں بھی ان کی یادیں بھلائی نہیں جا سکیں۔ یہ شہر کبھی امن، محبت اور اپنائیت کا گہوارہ تھا مگر نہ جانے اسے کس کی نظر لگ گئی۔آج کراچی کا حال دیکھ کر دل افسردہ ہوجاتا ہے۔ وہی شہر جو کبھی روشنیوں کا مرکز تھا، اب مسائلستان بن چکا ہے۔ یہاں سب نے حکومت کی، سب نے وعدے کیے، لیکن کسی نے دل سے اس شہر کے زخم نہیں سنے۔ حکومتیں دعوے اور نعرے تو لگاتی رہیں کہ کراچی ترقی کرے گا، پانی اور صفائی کے مسائل حل ہوں گے، مگر حقیقت میں حالات روز بروز بگڑتے گئے۔یہ شہر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی بندرگاہ، محلِ وقوع، صنعتی و تجارتی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہاں کی صنعتیں اور فیکٹریاں بند ہوگئیں اگر منصوبہ بندی، توجہ اور شفاف حکمرانی ہو تو کراچی نہ صرف ملک کو معاشی طور پر خود کفیل بنا سکتا ہے بلکہ لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرسکتا ہے۔ یہاں سیاحت، تجارت اور سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع ہیں، مگر بدقسمتی سے بدانتظامی، بے حسی اور سیاسی مفادات نے اسے ایک کمانے والے بیٹے سے بوجھ بنا دیا ہے۔میں نے حال ہی میں چار دن کراچی میں گزارے اور دل دہل گیا۔نئے ہاؤسنگ پروجیکٹس، سوسائٹیز اور اونچے پلازے تو ضرور بن گئے ہیں، مگر ان کے گرد ایک اور دیوار کھڑی ہو چکی ہے،طبقاتی دیوار۔ سمندر کے کنارے اور ندیوں میں ریت ڈال کر بنگلوں کی قطاریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ اونچی اونچی دیواروں نے شہر کو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ کئی علاقوں کے داخلی راستے بند ہیں۔ کہیں سانس لینا دشوار ہے کچرے کے ڈھیر ہیں کہیں پانی ناپید، کہیں کوڑا اٹھانے والا کوئی نہیں۔جب میں کورنگی اور قیوم آباد کے علاقوں میں گیا تو دل بھر آیا۔ سوچنے لگا کہ یہاں انسان آخر کیسے جی رہے ہیں؟ ڈیفنس ہاؤسنگ کی بلند دیواروں کے اس پار غربت، بدبو، گندگی اور محرومی کا ایک الگ جہاں بسا ہوا ہے۔ وہ کراچی جو کبھی سب کا تھا، اب تقسیم ہوچکا ہے دیواروں، خوف اور مفادات کے بیچ۔ ایک رات مجھے ایک پرانے دوست شاید عباسی سے ملنے جانا پڑا۔ حیرت ہوئی کہ کوئی بھی مجھے لے جانے پر راضی نہ تھا۔ سب کو ڈر تھا کہ موبائل فون چھن جائے گا، گاڑی لٹ جائے گی یا جان کو خطرہ ہو گا۔ آخرکار ایک دلیر دوست عابد بولا، چلیں، شاید آج ہماری باری نہ ہو، توکل اللہ پر۔ اس جملے نے کراچی کے موجودہ حالات کا خلاصہ کر دیا ایک ایسا شہر جہاں اب سفر بھی ایمان، امید اور دعا کے سہارے کیا جاتا ہے۔پانی کی ایک چھوٹی سی ٹینکی جس میں بمشکل چند گیلن پانی ہوتا ہے، آج ساڑھے سات سو روپے میں مل رہی ہے یہ ایک ایسے شہر کی حقیقت ہے جو سمندر کے کنارے آباد ہے حیرت ہے کہ جس شہر کے قدموں میں پانی ہے، وہاں کے باسی پانی کو ترس رہے ہیں۔ گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہیں، گیس ناپید ہے، حالانکہ گیس کے بڑے ذخائر اسی ملک کے صوبے بلوچستان میں موجود ہیں۔میں کسی ایک حکومت یا جماعت کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کا مطالبہ ہی نہیں کرتی۔ وہ حکومتوں سے کام لینا بھول چکی ہے، اور یہی خاموشی حکمرانوں کی طاقت بن گئی ہے۔مجھے کراچی کے ماضی کے وہ دن یاد آتے ہیں جب شہر کے میئر نعمت اللہ خان جیسے خدمت گزار لوگوں نے محدود وسائل کے باوجود کراچی کو دوبارہ سنوارنے کی کوشش کی۔ افسوس کہ وہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار صرف 27 سال کی عمر میں کراچی کے مئیر بنے تو اس وقت بھی حالات قدرے بہتر رہے کراچی گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکمرانی میں ہے ان دو جماعتوں کے درمیان تعلقات خرابی اور گرمجوشی رہتی ہے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں اب کراچی کا مئیر ایک نوجوان پیپلز پارٹی کے مرتضی وہاب ہیں صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے پیپلزپارٹی کی حکومت وفاق میں بھی بلواسطہ شریک ہے میری اپیل اس جماعت سے ایک ہی ہے کہ کم از کم اس شہر کی حالت بہتر کریں تاکہ آپ کے کام کی وجہ سے آپ کے ملک گیر ووٹ بینک میں اضافہ ہو لیاقت آباد، کیماڑی، اورنگی ٹاون تین ہٹی ناظم آباد نیو کراچی صدر کوئی ایسی جگہ بتادیں جہاں کی گلیاں صاف ہوں کچرا نہ ہو پانی سپلائی کا برابر ملتا ہو۔اسی دوران میری ملاقات اپنے پرانے دوست، سینئر ہدایت کار اور اداکار نذر حسین سے بھی ہوئی جو آج کل آرٹس کونسل میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ہم کراچی پریس کلب بھی گئے، جہاں یادوں کا ایک دریا بہہ نکلا۔ نذر حسین وہی شخص ہیں جو ماضی میں کراچی کے شوبز میں میری پروموشن کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ میں نے ان سے پوچھا، تھیٹر کا کیا حال ہے؟ سینما گھروں کی پوزیشن کیا ہے؟ اخباروں کی کیا حالت ہے؟نذر حسین نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا میاں؛سب کچھ بدل گیا۔ لوگ اخبار نہیں پڑھتے، تھیٹر نہیں جاتے۔ خیر، کراچی بدل گیا ہے۔ تم 35 سال بعد ملے ہو.جیسے تم بدل گئے ویسے ہی سب کچھ بدل گیا۔ان کے لہجے کی مایوسی میں کراچی کے بدلتے وقتوں کی پوری کہانی سمٹی ہوئی تھی۔کراچی کے باسی آج بھی محنتی، مخلص اور جفاکش ہیں، مگر وہ نظام جسے ان کی خدمت کرنی تھی، وہی ان پر بوجھ بن چکا ہے۔ اگر حکومتِ وقت نے اس شہر کے بنیادی مسائل پانی، بجلی، صفائی، ٹرانسپورٹ اور امن و امان پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی، تو یہ معاشی حب رفتہ رفتہ ملبے کا ڈھیر بن جائے گا۔کراچی صرف ایک شہر نہیں، یہ پاکستان کی معیشت کی نبض ہے اگر یہ نبض بند ہوگئی تو پورا جسم مفلوج ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کو سیاسی مفادات سے آزاد کر کے ایک بااختیار بلدیاتی نظام دیا جائے تاکہ یہ شہر ایک بار پھر روشنیوں، محبت اور زندگی کی علامت بن سکے جیسے یہ کبھی ہوا کرتا تھا۔

