کالم

کرپشن کی عجب کہانی

کسے معلوم نہیں کہ اگست 2018 میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان برسر اقتدار آئے تو لوگوں کی ایک بھاری اکثریت کو توقع تھی کہ شائد موصوف اپنے دعووں کے مطابق ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال کو بہتر کر دیں مگر عملی طور پر
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ،جو سنا افسانہ تھا
والا معاملہ ہوا اور کر پشن کم ہونے کی بجائے خطرناک حد تک بڑھ گئی یہاں یہ بات بھی دلچسپ اور اہم ہے کہ کچھ عرصہ قبل ریاض ملک نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے جو کام کروانا ہوتا ہے اس کام کی فائل کو پیسے کے پہیے لگا دیتے ہیں اور ہر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ این سی اے 190ملین پاونڈ کیس میں ملنے والی رقم قومی خزانے کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرائی گئی حالانکہ برطانیہ نے پاکستان کی امانت واپس لوٹائی مگر سابقہ وزیر اعظم عمران خان ا ور ان کے چند قریبی ساتھیوں نے وہ رقم ہڑپ کر لی۔یاد رہے کہ این سی اے 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کا بہت بڑا سکینڈل ہے اور برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے منجمند کیے گئے اکاﺅنٹس میں 190 ملین پاﺅنڈ تھے یہ تقریبا پاکستانی 70ارب روپے بنتے ہیں۔ اس وقت کی حکومت کی جانب سے نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ سے خفیہ معاہدہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ پیسہ ریاست پاکستان کے اکاﺅنٹ میں جائے گا لیکن بڑی چالاکی سے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرا دیا گیا۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے کہا کہ یہ رقم ریاست پاکستان کے اکاونٹ میں گئی ہے اور اس وقت کی حکومت نے اس رقم کو وطن واپس لانے کے حوالے سے خوب تشہیر بھی کی تھی۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ رقم بحریہ ٹاون کے واجبات کی ادائیگی کی مد میں استعمال کی گئی اور قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرا دی گئی اوریہ خطیر رقم سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے، اس بات کی انکوائری ہونی چاہیے کہ سپریم کورٹ نے اس کا جائزہ کیوں نہیں لیا۔ یاد رہے کہ 2دسمبر2019ءمیں کابینہ اجلاس میں اس معاملہ کو پیش کیا گیا لیکن کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کے منٹس مبہم ہیں۔3دسمبر 2019ءکو این سی اے نے اپنی پریس ریلیز میں کہا تھا کہ یہ منجمند اثاثے ریاست پاکستان کے حوالے کیے گئے ہیں حالانکہ یہ رقم رئیل ملک ریاض کو دے دی گئی۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ امر اہم ہے کہ اس رقم کے عوض القادر ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ 24کروڑ روپے مالیت کی 458کنال اراضی القادر ٹرسٹ کو مفت دی گئی اور اس ضمن میں 2021ءمیں ساڑھے اٹھارہ کروڑ روپے بینک اکاﺅنٹ میں ڈالے گئے اور10کروڑ روپے کا عطیہ بھی دیا گیا۔ القادر ٹرسٹ کے لئے مجموعی عطیہ 80کروڑ روپے بنتا ہے جو ان لوگوں نے دیا جن کو ریاست پاکستان کا پیسہ ملا یہ یقینا افسوسناک صورتحال ہے اور اس معاملہ میں سابق وزیراعظم عمران خان، ان کی اہلیہ،ان کی دوست فرح اور زلفی بخاری سمیت دیگر کا نام آتا ہے۔ یہ سادہ اور آسان معاملہ ہے لیکن اسے جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ ماضی میں بھی اگرچہ ملک میں کرپشن کی بہت سی داستانیں سامنے آتی رہی ہیں مگر جس دھڑلے سے عمران خان اور ان کی اہلیہ نے کرپشن کا یہ بڑا کارنامہ انجام دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور اس کی کوئی دوسری مثال پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں شائد ہی ملے۔ماہرین نے اس معاملے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسے معلوم نہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ موجودہ اتحادی حکومت نے تب یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ مذکورہ پراپرٹی کے مالک اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ ‘ پراپرٹی کی جو 190ملین پاﺅنڈ تقریباً 70 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پراپرٹی ٹائیکون کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کی گئی ۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض مارچ 2021ءمیں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ پراپرٹی مالک اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔جون 2022ءمیں موجودہ اتحادی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے مذکورہ ہاﺅسنگ سوسائٹی کے معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ موجودہ حکومت تما م سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرپشن کے اس بڑے معاملے کو اس کی منطقی انجام تک پہنچائے گی تاکہ وطن عزیز میں کر پشن کے بڑتے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے