اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام متحدہ کے س طرح اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصیٰ کے نام سے بھرپور کارروائی کی گئی اس نے تنازعہ فلسطین کو ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر کرکے رکھ دیا، ادھر عالامنے جو دو مسلے کئی دہائیوں سے حل طلب ہیں وہ بجا طور پر مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہیں، حال ہی میں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے جسمی عدالت انصاف نے بھی جنوبی افریقہ کی درخواست پر کم سے کم الفاظ میں اسرائیل کو فلسطینوں کی نشل کشی سے روکنے کی ہدایت جاری کی ہے،7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینی مرد وخواتین کو شہید کرچکا ہے، ہزاروں زخمی ہیں، سینکڑوں تباہ شدہ عمارات کے ملبے تلے دبے ہیںِ، غزہ تباہ وبربادی کا منظر پیش کررہا ہے مگر اقوام متحدہ و دیگر ادارے عملا کچھ کرنے کو آمادہ نہیں، دوسری جانب مسلہ کشمیر ہے، بھارت نے جس طرح کا ظلم وستم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا اس دنیا کے ہر باضمیر شخص کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے، پانچ فروری کا دن دراصل اسی عزم کی تجدید کا دن ہے کہ بھارتی مظالم کے جس قدر بڑھ جائیں کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے مطالبہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، بادی النظر میں مقبوضہ کشمیر میں آج قبرستان کی سی خاموشی ہے، بنیادی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں کشمیریوں کو ماورا عدالت قتل کیا جاچکا ، مقبوضہ کشمیر میں درجنوں ایسی قبریں درفیات ہوچکیں جن کی شناخت بارے بھارتی حکام مجرمانہ انداز میں خاموش ہیں، مقبوضہ وادی ہی نہیں کئی بھارتی جیلوں میں کمشیری قیدیوں کو غیر انسانی سلوک کا سامنا ہے، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماوں پر تشدد ریکارڈ پر موجود ہے،اس سب کے باوجود علاقائی اور عالمی قوتیں مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھارت پر دباو ڈالنے پر آمادہ نہیں، بظاہر تیزی سے ترقی کرتی ہوئی بھارتی معیشت میں مختلف ممالک اپنے لیے مواقع تلاش کرنے میں مصروف ہیں ، عالمی امن و انصاف کے ذمہ دار اس حقیقت سے عملًا چشم پوشی کرنے کے مرتکب ہورہے کہ پاکستان اور بھارت دوایٹمی قوتیں ہیں چنانچہ تھوڈ غلط فہمی علاقائی ہی عالمی امن کو تہہ وبالا کرسکتی ہے، پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے جنوبی ایشیاءکی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں،دونوں ملکوں میں ہتھیاروں کے حصول کی دوڈ لگی ہوئی ہے ، سارک جیسے پلیٹ فارم کی ناکامی کی نمایاں وجہ پاک بھارت تعلقات کا بہتر نہ ہونا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اگر دونوں ملکوں میں تجارت کا حجم بڑھ جاتا ہے تو آر پار کی عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے، دہشت گردی او مقروض معیشت جیسے ناسور کی وجہ بھی تنازعہ کشمیر ہی ہے،ا دھر اقوام متحدہ اور قیام امن کے دیگر عالمی اداروں کا موقف ہے کہ تنازعہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت نے ہی حل کرنا ہے، بھارتی آئین کی شق کے 370 کے خاتمہ نے بھی تنازعہ کشمیر کو مزید الجھا دیا ہے، سچ یہ ہے کہ بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو کسی طور پر حل کرنےمیں سنجیدہ نہیں، اس رویے کی بینادی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں تادم تحریر ایسا فیصلہ کن دباو نہیں آسکا جو اسے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر مجبور کردے، یہ پہلو بھی نظر انداز کرنےکے قابل نہیں کہ غیر مسلم ممالک تو ایک طرف مسلمان ملک بھی یک زبان ہوکر مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کا مطالبہ کرتے دکھائی نہیں دیتے، اس رویے کا پس منظر دراصل نائن الیون کا واقعہ بنا، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ سنیٹر میں دہشت گردی کے واقع کے بعد دنیا عملا تبدیل ہوکر رہ گی ، اس سانحہ کے بعد امریکہ سمیت مغربی ممالک کی اکثریت مسلم دنیا میں مسلح جدوجہد کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ حماس ہو یا مقبوضہ کمشیر میں مسلح جدوجہد کرنے والی دیگر تنظمیں اہل مغرب کسی گروہ کی حمایت کرنے پر آمادہ نہیں، دوسری جانب مسلم ممالک کا المیہ یہ ہے کہ بیشتر ملکوں میں آمرانہ طرز حکومت کی فروغ پذیر ہے، نسل درنسل چلے والے حکمران کسی طور نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں ایسی جہادی تنظیمیں فروغ پائیں جو کل ان کے اقتدار کو بھی چیلنج کردیں ، نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو بھارت نے کامیابی سے کیش کروایا ہے، بھارت نے لشکرطیبہ اور جیش محمد جیسی کشمیری تنظمیوں بارے مغربی ممالک کو یہ باور کروایا کہ مذکورہ تنظمیں نہ صرف پاکستان کی سرپرستی میں کام کرتی ہیں بلکہ اسلام کے اہم رکن جہاد پر بھی عمل کرنے کی دعویدار ہیں، یہی وہ عوامل تھے جن کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم وستم پر آنکھیں بند کرلی گئیں، پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بدستور کشمیریوں کی سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی کی بھاری قیمت بھی اد ا کی مگر وہ آج بھی بدستور اپنا موقف پر قائم ہے، یقینا کسی بھی قوم کے لیے آزادی کی منزل کا حصول آسان نہیں ہوا کرتا شائد یہی وجہ ہے کہ تمام تر مصائب کے باوجود آج بھی کشمیری قوم حق آزادی کے حصول کے لیے ہرگز پچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔
٭٭٭٭٭s