کالم

کشمیر کیسے کھو یا….؟

riaz chu

گزشتہ سے پیوستہ
انگریزوں نے شمال میںمک مرین لائن کے ذریعے سرحد کا تعین کسی حد تک کر دیا اور 1886ءمیں ہنزہ پر قبضہ کر لیا جس کی باجگزار ارد گرد کی ریاستیں یاسین، گوپس، اشکومان، ناگر وغیرہ تھیں۔ چین اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ تبت کے ساتھ کا علاقہ لداخ میں شامل تھا اور یہاں کوئی بھی واضح سرحد نہیں تھی۔ چین خود خانہ جنگی اور انقلاب سے گزر رہا تھا۔ 1949ءمیں وہاں پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو وحدت ملی کی صورت نکلی اور چین نے تبت پر قابض ہو کر اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ کنٹرول کرنا شروع کیا۔قیام پاکستان کے بعد چین کی فوجیں ہنزہ تک مارچ کرتی رہیں۔یہ علاقہ 1886ءتک چین کی عملداری میں تھا لیکن جب انگریز وہاں پر قابض ہوئے تو میر آف ہنزہ بھاگ کر چین چلے گئے اور انگریزوں نے ان کے بھائی کو میر آف ہنزہ بنا دیا۔ حکومت پاکستان نے نہ صرف کمیونسٹ چین کو تسلیم کیا بلکہ اس کے دوستانہ تعلقات استوار کر لئے۔ شمال میں سرحد کا تعین کر کے 1962ءسے پہلے معاہدے کو حتمی شکل دے دی جبکہ کشمیر پر بھارت کی قابض حکومت نے چالاکی دکھائی اور تبت اور لداخ کے درمیان کوئی حد بندی نہ ہو سکی۔ ویسے بھی تبت پر چین کے قبضے کے بعد بھارت نے دلائی لامہ کو اپنے ملک میں سیاسی پناہ دی اور وہ دھرمسالہ سے تبت کی جلاوطن حکومت قائم کر کے وہیں آ بسے۔ جموں و کشمیر پر ڈوگرہ استبدادایک صدی تک مسلط رہا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے بیٹوں گیان سنگھ اوردھیان سنگھ نے اپنی حکومت جاری رکھی۔ گیان سنگھ اور اس کی اولاد کا قبضہ سری نگر اور جموں کے علاوہ بلتستان اور گلگت پر تھاجبکہ دھیان سنگھ اور اسکی اولاد پونچھ کے علاقوں پر سرینگر کی حکومت کے ماتحت باختیارحکومت کرتی رہی۔ پونچھ میں سدوزئی (سدھن)پٹھان اور راجپوت لوگ ( راجے) آباد تھے یہ لوگ جنگ جو اور بہادر تھے۔ ان سے مقامی حکمرانوں کے تعلقات مناسب حد تک بہتر رہے جبکہ سری نگر کی عملداری میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ 1923ءمیں کشمیر کا ڈوگرہ راجہ پرتاب سنگھ سورگباش ہوا تو وہ بے اولاد تھا۔ اس کے وزیر اعظم امر سنگھ نے چالاکی سے اپنے بیٹے ہری سنگھ کو اس کا لے پالک بیٹا بنایا ہوا تھا جسے 1923ءمیں باقاعدہ طورپر جموں و کشمیر کا مہاراجہ بنا دیا گیا۔ پونچھ کے حکمرانوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور خود کو کشمیر کا جائز حکمران قرار دے دیا۔ ہری سنگھ نے انہیں قابو کر کے سری نگر میں قید کر لیا اور پونچھ ، راجوڑی، میر پور اور ملحقہ علاقوں پر بھی اپنا روایتی استبدادی نظام قائم کر لیا جس کے خلاف وہاں لوگوں میں سخت پریشانی کی لہر پھیل گئی۔ وہاں کے جنگ جو جوان اس وقت دوسری جنگ عظیم میں انگریز فوج میں انگریز فوج میں شامل ہو کر مختلف محازوں پر لڑائی میں مصروف تھے جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اس نئے اور ناموس استبدادی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے اور ان علاقوں میں آزادی کی لہر پاکستان کے بننے سے پہلے ہی شروع ہوگئی۔ 1935ءمیں انگریزوں نے گلگت کے علاقہ کو 65 سالہ لیز پر لے لیا اور اسے اپنی ایجنسی قرار دے دیا جہاں سے وہ ہنزہ اور دیگر ریاستوں پر کنٹرول حاصل کر سکتے تھے۔ انگریز اس جانب سے روسیوں کی ممکنہ پیش قدمی کو روکنا چاہتے تھے۔ ماہر اقبالیات نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل 1931ءمیںسری نگر میں ایک پٹھان عبدالقیوم کی مہاراجہ ہری سنگھ کے ظلم کے خلاف تقریر پرحالات خراب ہوگئے اور لوگوں پر گولی چلا دی گئی اور سری نگر فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ کشمیر امن کمیٹی قائم ہوئی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کے تحفظ کےلئے کمیٹی قائم کی جس میں علامہ اقبالؒ شامل تھے اور آپ کو اس کا کچھ عرصہ بعد سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ علامہ اقبالؒ کشمیر کے معاملات میں 1896ءسے دلچسپی لے رہے تھے اور1896ءمیں وہ انجمن کشمیر مسلماناں میں اپنے عزیز مولوی الف دین کی قیادت میں شامل ہوئے اور اس کے نائب صدر بھی مقرر ہوئے۔ ایک آدھ موقع پر ان کے کشمیر میں داخلہ پر پابندی لگی اور پھر انہیں جانے کی آزادی ملی۔ پیام مشرق (مطبوعہ 1923ئ) میں آپ کی نظم کشمیر اور ساقی نامہ اور جاوید نامہ میں جو 1932ءمیں شائع ہوئی، کشمیر پر آپ نے طویل نظمیں لکھیں اور تاریخی تناظر میں وہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے علامہ اقبالؒ اور کشمیر کے تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبالؒ اس وقت دیگر کشمیری زعما محمد الدین فوق، چراغ حسن حسرت اور سرتیج بہادر سپرو سے رابطے میں تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو آپ سے ملنے1938ءکے اوائل میں جب لاہور میں جاوید منزل آئے تو انہوں نے بھی اپنی مشترکہ کشمیر برہمن خاندانوں سے تعلق کا اپنی بایو گرافی میں حوالہ دیااور علامہ اقبالؒ اپنی زندگی کے آخر تک کشمیر کے معاملات میں مذاکرات کرتے رہے۔ آپ نے فارسی کے علاوہ اپنی اردو شاعری میں بھی کشمیر کا ذکر یوں کیا
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہء افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہء دہقان پیر
آہ! یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
اس کے علاوہ علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک فارسی شعر میں آنے والے واقعات کی طرف یوں اشارہ کیا ہے
باش تابینی کہ بے آواز صور
ملّتِ بر خیزداز خاکِ قبور
ترجمہ : تھوڑی دیر ٹھہرو اور دیکھنا کہ ایک قوم اپنی قبروں سے کفن جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوگی۔
پاکستان بنا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سٹینڈ سٹل یعنی صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا معاہدہ کیا اور اپنا مواصلاتی نظام حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا اور 14 اگست 1947ءکو سری نگر کے جنرل پوسٹ آفس پر پاکستان کا پرچم لہرادیا گیا۔ جموں کے ریلوے اسٹیشن پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا اور چراغاں ہوا جس سے یہ خبر پھیل گئی کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہوگیا ہے۔یہ حالات ہندوو¿ں کےلئے ناقابل قبول تھے۔ دوسری جانب شیخ عبداللہ اور بخشی غلام محمد بھی پنڈت نہرو سے ساز باز کر رہے تھے۔اس دوران لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے کہنے پر ریڈ کلف نے گوداسپور کا مسلم اکثریتی ضلع بھارت میں شامل کر کے پٹھانکوٹ اور کٹھوعہ کے راستے سے جموں سے بھارتی پنجاب کو گزرگاہ فراہم کر دی۔ ہندو بڑی تعداد میں جموں کے علاقے میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ حالات قابو سے باہر ہوئے تو ہری سنگھ نے مہاراجہ پٹیالہ کی تین فوجی بٹالین اپنی سیکورٹی کےلئے بلوالیں۔
(……..جاری ہے)
ان دنوں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان کشمیری النسل تھے اور انہوں نے اس صوبہ کو ریفرنڈم کے ذریعہ پاکستان کا حصہ بنوایا تھا۔انہوں نے پٹھان قبائلیوں کو اکٹھا کر کے بتایا کہ وہ سکھ افواج جنہوں نے پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اب وہ کشمیر میں آگئی ہے اور مظفر آباد آپ کے قصبہ گڑھی حبیب اللہ سے آٹھ میل ہے ہو سکتا ہے وہ وہاں تک نہ رکیں اور صوبہ سرحد میں آ گھسیں اور آپ کی بہنوں بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائیں۔ غصے کے مارے قبائلی کشمیر میں داخل ہوگئے۔ پونچھ اور ملحقہ علاقوں میں پہلے سے مسلح جدوجہد جاری تھی۔ گلگت کے لوگوں کے دباو¿ میں انگریز افسروں کے ساتھ مل کر صوبیدار میجر بابر نے مہاراجہ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر بریگیڈیر گھنسارا سنگھ کو قابو کر کے یکم نومبر1947ءکو گلگت ایجنسی کے قیام سے لے کر گلگت لیز ایگریمنٹ 1935 تک اس علاقہ کی انتظام ایک انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی ذمہ داری تھی جو اس علاقہ سے متصل ممالک چین اور روس پر نظر رکھتے تھے۔ اس معاہدہ کے تحت برٹش انڈیا کی حکومت نے گلگت ایجنسی میں براہ راست اپنی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ قائم کی جسے گلگت سکاو¿ٹس کے کمانڈنٹ کی اعانت حاصل تھی۔ تقسیم ہند کے منصوبہ کے تحت برطانوی حکومت نے گلگت لیز ایگریمنٹ ختم کر دیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ کے حوالے ہوگئی تو مہاراجہ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا پھر اسکی جگہ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کر دیا۔ گلگت کے لوگوں کے دباو¿ میں انگریز افسر میجر ویلم بروان کمانڈنٹ گلگت سکاو¿ٹس کے ساتھ مل کر صوبیدار میجر بابر نے مہاراجہ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو قابو کر کے یکم نومبر1947ءکو گلگت کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یکم نومبر1947ءکو ڈوگرہ حکومت سے آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا گیا۔ شاہ رئیس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا صدر مقرر کیا گیا۔ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو قیدیوں کے تبادلے میں ہندوستان کے حوالے کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف 16 دن تک برقرار رہی پھر حکومت پاکستان نے اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کر لیا اور تاحال یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ ایک برس کے دوران بلتستان کے لوگوں نے سخت مزاحمت کے بعد پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔
انیس سونوے کی دہائی میں کشمیر ی وادی میںپھر اٹھ کھڑے ہوئے اور حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ اس دوران جموںصوبہ میںمسلمان قتل عام اور ہجرت کے باعث اقلیت میں تبدیل ہوکر رہ گئے اور ان کی اکثریت دو اضلاع ڈوڈہ اور راجوڑی تک محدود ہوگئی۔ وادی کشمیر خون میں ڈوب گئی ۔ پھر کارگل کی جنگ ہوئی اور اس کے نتیجہ میں پاکستان پر بین الاقوامی دباو¿ پڑا ۔1998ءمیں امریکہ نے بھی کشمیر پر اپنی پالیسی تبدیل کر لی ۔ چین اپنے تبتی علاقے کی بازیابی میں مصروف ہوگیا۔
اب بیک ڈور ڈپلومیسی کا دور تھا جس میں بہت پیشرفت ہوئی ۔ کشمیر کی ریاست کی تقسیم اور وادی کے لوگوں کے کنٹرول لائن کے آرپار روابط اور باآسانی سفر کے علاوہ تجارت اور دیگر انتظامات کے علاوہ بات وادی کے مشترکہ کنٹرول تک کے امکانات تک جا پہنچی ۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ شاید پاکستان اور بھارت کسی حل تک پہنچ رہے ہیں۔
پروفیسر وحید الزمان طارق کہتے ہیں کہ اس دوران انہیں بھی سرکاری طورپر بھارت جانے کا موقع ملا پھر نیویارک میں مقیم مشہور کشمیری بزنس مین فاروق کاٹھیا سے رابطہ ہوا اور اس سلسلے میں اپنا مقدور بھر کردار ادا کیا۔ اس دوران میرا رابطہ کنٹرول لائن کے اس پار کشمیر کے اہل علم اقبال شناسوں سے بھی ہوا۔ اعتماد کی فضا کو قائم کرنے اور پرامن حل ڈھونڈنے کی کوششیں جاری رہیں۔ من موہن سنگھ اور باجپائی کی حکومتیں بھی اس مسئلہ کے باعزت حل کے سلسلہ میں پس پردہ رابطوں کے حق میں تھیں۔
اسی دوران بھارت میں مودی کی ہندوتوا پر مبنی شدت پسند حکومت قائم ہوئی ۔ اس حکومت نے آج سے چار برس قبل کشمیر پر قبضہ مکمل کر کے آرٹیکل 370کا خاتمہ کر کے کشمیر کا آئین کالعدم قرار دے کر وہاں بھارتیوں کو آبادکاری کی اجازت دے کر اس کے تشخص کو پامال کر دیا۔ آج دنیا خاموش ہے اور کشمیری مایوس۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے