کالم

کوئی ظالم تے کوئی مجبور اے

دنیا میں مسلمانوں کا ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں طوائفوں کا جنازہ نہیں پڑھاجاتا، دفنانے کے بجائے انہیں سمندر برد کردیا جاتا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ مرنے والوں نے زندگی پاک صاف نہیں گزاری ہوتی۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ ہمارا رب جانتا ہے کون گناہگار اور کون پرہیزگار ہے۔ مرنے کے بعد سزا کا فیصلہ وہ ذات کرے گی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جس نے ہمیں موت دی ہے۔سمندر برد کرنے والے انسان بنے خدا نہ بنیں ؟ کیا قصور وار وہ نہیں ہیں جھنوں نے انہیں طواف بنے دیا۔ وہ ناچ گانا کرتی ہیں خوبصورت آواز سے لوگوں کو بہلاتی ہیں۔ لوگ انکے پاس سننے آتے ہیں۔ اگر انہیں سمندر برد کرنا ہے تو انکے پاس آنے والوں کو سمندر برد کیوں نہیں کرتے۔ طوائف کہتی ہیں ہم گانا بجانا اپنے کوٹھے پہ کرتی ہیں۔جس سے ہمار گھر کے چولہے جلتے ہیں،ہمارے بھی بزرگ ہیں جنہیں ہم پالتیں ہیں۔ کس نے کہا کہ صرف کوٹھے والیاں گناہگار ہوتی ہیں۔ ہم گاتی اور ناچتی ہیں۔اگر پیسے ہوتے تو ہم بھی اسٹوڈیو میں جا کر گاتیں لوگ گانے سنتے خریدتے اور ان گانوں کی ریلٹی ہمیں ملتی۔ فلموں کے لئے گاتی،شہرت ملتی پیسہ ملتا ۔ یاد رہے ہم میں کچھ ایسی بھی ہیں جو مجبوری کے تحت اس پیشے سے منسلک ہیں جن کو معاشرہ ٹھکراتا ہے وہ ہمارے پاس چلی آتی ہیں۔کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہمارے متعلق نیک خواہشات رکھتے ہیں، سوچتے ہیں کہ انہیں بھی معاشرے میں عزت ملنی چاہیے۔ یہ سوچ اور خیالات کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ ایک وہ ہیں جو خوبصورت لباس پہن کر ماڈلنگ کرتی ہیں فلمی دنیا سے منسلک ہیں۔کیا کبھی ان کو بھی کسی نے سمندر برد کیا ہے یا کرنے کاکسی نے سوچا ہے ۔ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے ۔ کیا کبھی طوائف کو بہتر زندگی گزارنے کا کسی نے سوچا ہے۔اس سوال پر مجھے پیر کاکی تاڑ یاد آ گئے آپ کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔ مجھے ان کی قریت حاصل رہی ۔وہ فرشتہ نما خوبصورت انسان تھے۔ وہ اکثر لاہور کے بازار حسن اور بادشاہی مسجد میں آتے جاتے رہتے تھے۔ انہوں نے طوائف کمیونٹی کیلئے بہت احسن کام کئے اس نیک کام میں بادشاہی مسجد کے امام کے تعاون سے ایک نہیں درجنوں طوائفوں کی شادیاں کرائیں ان کے گھر بسائے۔ اچھے لوگ آج بھی ہیں جن کا ہم ذکر نہیں کرتے۔اس موقع پر حضرت بہاوالدین ذکریا سے منسوب ایک واقعہ یاد آ گیا۔کہا جاتا ہے کافی عرصے سے بارش نہیں ہو رہی تھی سب پریشان تھے ،دعائیں کرتے نمازیں پڑھتے مگر بارش نہ برستی۔ لوگ اکھٹے ہوئے سوچا آج حضرت بہاوالدین ذکریا کے پاس دعا کرانے جاتے ہیں ۔سب نے ملکر آپ سے عرض کی کہ بارش کی دعا کرانے حاضر ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہاں ایک عورت رہتی ہے اگر اس نے دعا کی تو بارش ضرور ہو گی۔پوچھا وہ کون ہے ؟ جواب ملا وہ ایک طوائف ہے۔ اگر وہ مان گئی اور دعا پر راضی ہوئی تو بارش ضرور ہو جائے گی۔سب اسکے پاس جانے کےلئے راضی ہو گئے، جب اس گھر کے قریب پہنچے تو وہ ہجوم کو دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ حضرت نے قریب جا کر اس سے ہم کلام ہوئے اور مدعا بیان کیا ۔یہ سن کر اس نے کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کردعا کی تو فوری بارش شروع ہو گئی۔جب وہ ہاتھ کھڑکی کے اندر لے گئی تو بارش رک گئی۔یہ منظر دیکھ کر سب حیران تھے۔پوچھا گیا یہ کیسے ممکن ہوا ہے۔طوائف نے بتایا کہ ایک رات میں گانے کا پروگرام کر کے ساتھیوں کے ساتھ تانگے میں آرہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں کہ سڑک کے کنارے ایک کتے کا بچہ پانی میں کھڑا کانپ رہا ہے۔یہ دیکھ کر میں نے کوچوان کو رک جانے کو کہا اور تانگے سے اتر کر اس بچے کو اٹھایا۔ اسے اپنے کپڑوں سے خشک کیا ۔گھر لاکر اسے آگ کے پاس رکھا۔دودھ پلایا اور خدا سے شکوہ کیا کہ انسانوں کا خیال نہ رکھ مگر بے زبان کا خیال تو رکھ جو سخت بارش اور سردی میں تھٹھر رہے ہوتے ہیں۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ بارش رک گئی۔ اسکے بعد جب میں بارش کی دعا کرتی ہوں تو وہ ذات میری دعا سن لیتی ہے۔ یہ بھی ایک طوائف تھی جس کی خدا سنتا تھا،اور جس کی دعا سے بارش ہوتی تھی ۔ہر کوئی شوق سے طوائف کا روپ نہیں دھارتے اس کو پروفیشن نہیں بناتے بلکہ حالات اسکے ایسا کرنے پر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کوئی انہیں سمندر برد کرنے والوں سے پوچھے کہ ان کے لیے کوئی ایسے کام کیوں نہیں کرتے جس کے بعد انہیں ایسی زندگی گزارنے کی ضرورت نہ رہے پھر بھی اگر ایسی زندگی گزارتے ہوئے یہ مر جاتی ہیں اگر وہ مسلمان تھی تو اس کے بعد کسی کو اجازت نہیں کہ اس کا جنازہ نہ پڑھے اور اسے سمندر برد کر دے۔ کیا جو لوگ سنت نبویﷺ پر عمل نہیں کرتے کیا انہیں سمندر برد کر دینے کا کسی نے حکم صادر کر رکھا ہے۔کیا سمندر برد کرنےوالے گناہگار نہیں ہورہے ۔ ہم نے تو سن رکھا ہے کہ ایک طوائف نے پیاسے کتے کو کنویں سے پانی نکال کر پلایا تھا تو اس کی بخشش ہو گئی تھی۔ لہٰذا ہم کون ہوتے ہو کسی کو سمندر برد کریں۔ سوائے خدا کی ذات کے کسی کو نہیں معلوم کون جہنمی ہے اور کون جنتی ہے کوئی نہیں جانتا کہ کون عمر کے کس حصہ میں راہ راست پر آجائے ۔ہو سکتا ہے اسے زندگی کے آخری ایام میں سمجھ آجائے اور وہ گناہوں سے توبہ کر لے کیونکہ توبہ کے دروازے تو مرتے دم تک ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم وہ کام کریں جس سے کسی کی دلآزاری نہ ہو۔ اپنے حقوق العباد کا خیال رکھیں یہی کافی ہیں کہ کوئی ہاتھ اٹھا کر بد دعا نہ کرے ، خدا کے کام خدا کو ہی کرنے دیں ،بندہ خدا نہ ہی بنے تو بہتر ہے۔ کسی انسان کو اس کے کرتوتوں سے اسے مرنے کے بعد سمندر برد کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے ۔اچھے برے کام کا علم بندے کو خود علم ہوتا ہے یا اس کے خدا کو۔ کیاجو شخص مسلمان کہلاتا ہے مگر پھر بھی انسانوں کو مردار گوشت فروخت کرتا ہے تو کیا ایسے شخص کو سمندر برد کسی نے کبھی کیا ہے یا جو شخص اشیا میں ملاوٹ کرتا ہے جس سے دوسرے انسانوں کی صحت خراب ہوتی معاشرہ تباہ ہوتا ہے کیا ایسے شخص کو سمندر برد کسی نے کیا ہے یا وہ شخص جو کسی پر غلط الزام لگاتا ہے جس سے گھر اجڑ جاتا ہے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں کیا اس شخص کو کسی نے سمندر برد کیا یا کوئی شخص اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ غلط کام کرتا ہے اور کرنے کو کہتا ہے۔ نہ کرنے پر اسے او ایس ڈی بنا دیتا ہے توکیا ایسے شخص کو سمندر برد کسی نے کیاہے۔ یا ہیرا پھیری سے امیر بن جاتا ہے۔ یا کوئی شخص کسی یتیم بیوہ کی جائیداد پر جعلی کاغذات بنا کر قبضہ کر لیتا ہے تو کیا ایسے شخص کو کسی نے سمندر برد کیاہے۔ یہ لوگ تو طواف سے زیادہ گناہگار ہیں۔ لیکن ایسے لوگ سمندر برد نہیں کئے جاتے صرف طواف کو ہی سمندر برد کیوں۔ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جو انسان نہیں خدا بن کر حکم دیتے ہیں۔ جنازہ نہیں پڑھتے دفنانے نہیں دیتے۔ حضرت بابا بلھے شاہ وہ خوبصورت شخصیت ہیں جنکے کلام پر سکالر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انسانی اقدار اور فکروعمل کے باعث ہندو مسلمان سکھ اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ان سے یکساں محبت رکھتے ہیں بلھے شاہ کی موت کے وقت ان کی انقلابی فکرو عمل کے باعث اس وقت کے ملاں نے انہیں عام قبرستان میں انہیں دفن کرنے کی اجازت نہ دی تھی جنازہ نہ پڑھایا تھا۔ جسکے بعد انہیں ایک ویرانے میں دفنا دیا گیا تھا لیکن اج ان کے مزار کے گرد سارا شہر قصور آباد ہو چکا ہےان پر کفر کا فتوی لگانے والوں کا کوئی نام لیوا نہیں بچا ہے مگر بابا بلھے شاہ آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ بلھے شاہ اساں مرنا نہ ہیں گور پیا کوئی اور۔
بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں ،
کر غور ہتھ دیاں انگلیاں تے
ہر اک وچ فرق ضرور ہے
انج فرق ہے ساری دنیا وچ
کوئی ظالم تے کوئی مجبور اے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے