کالم

کیا عمران خان ذہنی بیمار تو نہیں ؟

اگر ہم غور کریں تو تقریباً 10 فیصد سے لیکر 18 فیصد یعنی 5 کروڑ کی آبادی کسی نہ کسی صورت نفسیاتی بیماریوں سے دوچار ہیں ۔ مگرزیادہ سے لوگ یا بیمار ایسے ہیں جو شدید قسم کی نفسیاتی بیماری کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ ایک عام آدمی کو نفسیاتی عا رضہ لاحق ہو جائے تو معاشرے پر اُسکا اتنا گہرا اثر نہیں پڑتا جتنا اُس افسر ،اعلیٰ سرکاری اہلکارججز حضرات اورخا ص طور پر سیاسی لیڈر کا پڑتا ہے جس کے پاس ریاست کا کوئی عہدہ یا ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی اعلی اہل کارریاستی اور حکومتی معاملات کو چلاتے رہتے ہیں اور اس کے اس قسم کے نفسیاتی مسائل اور بیماریوں سے ریاست اور عوام کو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اچھا ذہن اور اچھی دماغ اچھے خیالات ، احساسات ،معا ملہ فہمی ، موثر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو جنم دیتا ہے ۔ جبکہ اسکے بر عکس بیمار ذہن، الجھنوں ، پیچیدگیوں کو جنم لیتا ہے ۔اگر ہم اپنے سیاست دانوں کی ذہنی اور نفسیات پر نظر ڈالیں تو ہمارے اکثر سیاست دان ایسے ہیں جو نفسیاتی بیمار ہیں ۔ اگرتحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی نفسیات پر نظر ڈالی جائے تو انتہائی معتبر اورمعروف ماہر نفسیات کے مطابق عمران خان نفسیاتی بیمار ہیں۔کیونکہ بقول انکے عمران خان کے با ڈی لینگویج ، ذہن اور ماضی قریب میں مختلف اقدامات اور فیصلوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت بیمار ہیں۔ عمران خان کا پہلے امریکی سائفر یا خط کا ڈھنڈورا پیٹنا ، امریکہ اور امریکی انتظامیہ کو اپنے حکومت ختم کرنے کےلئے مور د الزام ٹہرانا، اسکے بعد جنرل باجوہ پر اپنے اقتدار اور حکومت ختم کرنے کا الزام لگانا ، اسکے بعد پنجاب کے نگران وزیر اعلی نقوی کو اپنی حکومت ختم کرنے کے لئے الزام لگانا، پانچ مہینے تک امریکیوں کے خلاف راگ الاپنا ، اسکے بعد پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے استعفی دینا اور قومی اسمبلیوں کو تو ڑنا، سپیکر پرویز اشرف سے پی ٹی آئی قومی اسمبلی ممبران کے استعفیٰ کے لئے ضد کرنا ، پھر استعفیٰ قبول کئے جاتے ہیں تو اسکے بعد اسمبلیوں میں واپس آنے کےلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا اور اپنی استعفوں کو واپس لینے کےلئے قومی اسمبلی کے سپیکر پر دباﺅ ڈالنا، اسکے بعد خیبر پختونخوا اور پنجاب کے صوبائی اسمبلیاں توڑنا اور ان دو صوبوں میں اپنی حکومتیں ختم کرنا،۔ بعد ازاں یکایک یو ٹرن لیتے ہوئے اپنی صوبائی حکومتوں کے بحالی کےلئے ہائی کورٹ اور سپریم کو رٹ سے رجوع کرنا، بعدازاں پی ٹی آئی کے ممبران کا امریکی سفیر سے اسلام آباد میں ملاقاتیں کرنا ، امریکہ سے تعلقات بحالی کےلئے فرم ہائر کرنا ، امریکی وفد کا لاہور میں عمران خان سے ملاقات کرنا، اپنے اوپر حملوں کے خطروں کا ذکر کرنا اور ابھی یہ کہنا کہ میری ھکومت امریکہ نے نہیں جنرل باجوہ اور پنجاب کے قائم مقام محسن نقوی نے گرائی ہے ۔ اگر ہم کپتان کے مندرجہ بالا ان تمام بیانات اور اقدامات کا بغور تجزیہ کریں تو اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان دیگر اور ذہنی بیماروں کی طرح بیمار ہیں اور یہی وجہ ہے اسکی اس بیماری کو زیادہ سے زیادہ سے زیادہ توجہ دینی کی ضرورت ہے کیونکہ ایک سیاسی، عسکری یا کسی اعلیٰ سرکاری اہل کار کی ذہنی حالت ٹھیک ہونی چاہئے کیونکہ انکے ساتھ ملک اور قوم کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ میں ریاست کے اعلیٰ حکام کو اس کالم کے توسط سے استد عاکرتا ہوں کہ عمران خان ، دیگر سیاسی لیڈران ، اعلیٰ ملٹری اور سول بیورواکریسی اور ججز حضرات کا سال میں دو دفعہ ضروری میڈیکل اور ذہنی فٹنس چیک اپ ہونا چاہئے ۔ کیونکہ لگتا ہے کہ جس طرح ہمارے سیاستدانوں ، خاص طور پر عمران خان نے جو رویہ اپنا ہوا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کسی نہ کسی طرح ذہنی طور پر بیمار ہیں ۔ اس قسم کی پولارائزیشن ، آپس میں چپقلش اور رسہ کشی سے پاکستان کے ۳ ۲ کروڑ عوام کو نقصان ہوتا ہے جنکی خون پسینے کی کمائی پر ہمارے یہ حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں ۔ اگر ہم غور کریں تو پاکستان کے ۳ کرور عوام کی تباہی اور بر بادی کے ذمہ دار یہی سیاست دان ، سول اور ملٹری بیراکریسی ہے۔ میں عوام سے سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی حکمرانوں پر دباﺅ ڈالیں کہ وہ انکے ٹیکس کے پیسوں کا صحیح صحیح مصرف کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri