کالم

گلزارِ دینہ

(گزشتہ سے پیوستہ)
جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر دینہ کے مقام پر جام شہادت نوش کیا اور ان کے نام کی نسبت سے یہ جگہ دینہ کہلانے لگی۔ فاتحہ خوانی کے بعد ہم نے قدرے بلندی پر قائم بابا دینہ کے مزار کے احاطہ میں کھڑے ہو کر دینہ شہر کی آبادی کا جائزہ لیا ۔جی ٹی روڈ پر وا قع ہونے کی وجہ سے دینہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب دور دور تک مکانوں کا سلسلہ نظر آیا جی ٹی روڈ واقع ہونے کی وجہ سے کاروباری لحاظ سے بھی دینہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔غلہ منڈی ، سبزی منڈی ، منگلا روڈ، ریلوے روڈ، مین بازار اور داتا روڈ اس کے اہم تجارتی مراکز ہیں بابا دین محمد شہید کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد ہم واپس جی ٹی روڈ پر آگئے، شام ہو چکی تھی لیکن ابھی دینہ اور کرلاںکے بارے میں مزید جاننے کی خواہش باقی تھی تاہم ہمسفر احباب کے مشورہ سے واپسی کیلئے رخت ِ سفر باندھا اور دل ہی دل میں دوبارہ دینہ کے تفصیلی دورے کا پروگرام بنایا ۔ اگلی مرتبہ دینہ کے دورہ کے دوران دینہ سے چند کلومیٹر آگے جہلم کے نواحی گائوں کالا گجراں سے تعلق رکھنے والے ماہر عمرانیات چوہدری واجد حسین میرے ہمراہ تھے چوہدری واجد حسین نے بتایا کہ دینہ کو 2005 ء میں تحصیل ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیا گیا۔ تقسیم سے قبل یہاں ہندو اور سکھ آ باد تھے۔ جن کے قدیم مکانات اب مختلف جگہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ پٹوار خانہ، سرائے اور چند دیگر قدیم عمارات آج بھی دینہ کی قدامت کی گواہی دیتی نظر آ تی ہیں۔ دینہ کے مشہور محلوں میں محلہ شیخاں، محلہ معصوم شاہ، مولا کوثر آباد، میانہ محلہ، ڈومیلی محلہ، نورمحلّہ، محلہ لال شاہ بخاری اور محلہ تاج پوری وغیرہ شامل ہیں۔ چوہدر ی واجد حسین نے مزید بتایا کہ اب قائد اعظم ٹاؤن، اقبال ٹاؤن اور لیاقت ٹاؤن کے نام سے نئی آبادیاں بھی اس کا حصہ بن چکی ہیں۔ جبکہ مفتیاں اور ٹھیکریاں کے دیہات بھی دینہ کی آبادی کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ جبکہ سرکاری سطح پر گورنمنٹ الطاف حسین گریجویٹ کالج اور فاطمہ جناح کالج قائم ہونے کیساتھ ساتھ کئی سرکاری اور پرائیویٹ سکول اور پرائیویٹ کالج بھی قائم ہو چکے ہیں۔ دینہ میں طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے سرکاری سطح پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال قائم ہے جبکہ کئی چھوٹے بڑے پرائیویٹ ہسپتال بھی قائم ہو چکے ہیں ۔ اس دورہ کے دوران ہم دوبارہ کرلاں گئے اور کرلاں کی مختلف گلیوں اور گلزار کی آبائی حویلی والی گلی سے گزرتے ہوئے سید واجد علی شاہ کے مزار پہ پہنچے ۔کرلاںکے مغرب میں واقعہ مدفون بزرگ کے معتقدین نے سید واجد علی شاہ اور ان کیساتھ مدفون افراد کے مر قدوں کو خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا ۔ہم نے وہاں فاتحہ خوانی کی اور پھر واپس کرلاں کی گلیوں میں کچھ دیر گھومنے کے بعد دینہ واپس لوٹ آئے ۔ وہی دینہ جس کے بارے میںگلزارنے کہا تھا کہ
ذکر جہلم کا، بات ہے دینے کی
چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی
دینہ کی محبت گلزار کو 2013 ء میں دینہ کھینچ لائی ۔ ڈاکٹر انور نسیم نے دینہ میں گلزار کی آمد کا احوال یوں بیان کیا کہ "اہل دینہ کو تو اس بات پہ بے انتہا خوشی بھی ہے اور فخر بھی کہ گلزار صاحب اپنی جنم بھومی دینہ تشریف لائے ۔ دینہ میں ان کا وقت بہت اچھا گزرا۔ ریلوے سٹیشن پر انہوں نے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ پھر اپنے آبائی گھر گئے ۔ یہ تمام تجربات اور مشاہدات انتہائی Emotionalتھے ۔ لوگوں نے بڑی محبت سے ان کاا ستقبال کیا۔ انہیں مٹھائی پیش کی۔ گلزار ان گلیوں میں گھومتے رہے جہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔ اپنے گھر کے اندر گئے اور پھر وہاں سے اپنے سکول روانہ ہوئے ۔ وہاں بھی ان کا بڑے جوش و خروش سے استقبال کیا گیا ۔ سکول کے اساتذہ اور پرنسپل پھولوں کے ہار لئے انکے منتظر تھے ۔اتنے برسوں بعد اپنے پرانے سکول اور اس کا "گلزار کالرہ بلاک ” دیکھنا اور اہل دینہ کا اتنی محبت سے استقبال ؛ ان کیلئے انتہائی Emotional تجربہ تھا۔ سکول سے رُخصت ہوتے وقت وہ بہت اُداس نظر آئے۔گلزار شاید چھ گھنٹے ” دینہ ” میں رہے اور قیام کے دروان برادرم ایوب خاور، ڈاکٹر ظفر حسن ، نصیر احمد ناصر او ر گُل شیر بٹ قدم بہ قدم ان کے ہمراہ رہے”۔ اپنی کتاب "گر یاد رہے” کا انتساب گلزار نے گل شیر بٹ کے نام کیا ہے جبکہ اسی کتاب میں نصیر احمد ناصر کی شاعری کو سراہتے ہوئے گلزار اپنی جنم بھومی دینہ کے دورہ کی مختصر روداد یوں بیان کرتے ہیں ۔”ایک بار وقت نے پہلو بدلا۔ میں لاہور گیا اور پانچ گھنٹے کا سفر کرکے جہلم کا پُل گزر کے دینہ پہنچا۔ اپنا پیدائشی گھر دیکھنے اپنے جنم کی مٹی چھونے ۔ میں آٹھ سال کا تھا جب نکلا ستّر سال کے بعد لوٹا! دینہ اسٹیشن پر گیا کچھ احباب ملےِ ایک شخص نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا میں نصیر احمد ناصر، میں دیکھتا رہ گیا۔زندگی کتنی سخی ہے جو ایسے دوست دیتی ہے اور ایسے شاعر !!
میں رہتا اس طرف ہوں یار کی دیوار کے لیکن
میرا سایہ ابھی دیوار کے اُ س پار گرتا ہے
بڑی کچی سی سرحدایک اپنے جسم و جان کی ہے
شاید ہی کوئی دوسرا شا عر ہو جس نے گلزارایسی شدّت سے اپنی جنم بھومی کو یاد رکھا ہو جوتڑپ اپنے آبائی قصبہ دینہ کے حوالے سے گلزار کے اندر موجزن ہے اس کا اظہار اُنہوں نے کھل کر اپنی نظموں میں کیا اور کسی تصنع و بناوٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے بچپن اور دینہ کی یادوں کو زندہ جاویدکر دیا۔گلزار کے سینہ میں دینہ یوں دھڑکتا ہے جیسے کسی عاشق کا اپنے محبوب کے نام پر دل دھڑکتا ہے۔ دینہ کے عنوان کے تحت لکھی گئی گلزار کی نظم کا پہلا بند ملاحظہ کیجئے:
میں واگھا سے چلا تھا
زمینوں پر کھچے خانوں میں
” سٹاپوں”کھیلتا اور پار کرتا
دُھویں کی گاڑی میں” جہلم "کا پُل گزرا
میں "کالووال” سے منگلا کے پیچھے کی طرف نکلا
جہاں”کرُلاں” سے لگتا شہر” دینہ” ہے
وہاں پیدا ہوا تھا میں
گلزار کی بیٹی میگھنا گلزار لکھتی ہیں کہ”اُ نکے بچپن کے جو خاکے انکے ذہن میں گہرے نقش ہیں وہ انکے گائوں دینہ، جہلم پاکستان کے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔”دینہ اب بھی گلزار کے خوابوں میں آتا ہے۔دینہ میں گزرے ایاّم اور دینہ کے آس پاس موجود مقامات اب بھی اسکے خوابوں میں اکثر آتے ہیں وہ دینہ سے جڑے اپنے خواب ہر ایک کو دکھانا چاہتا ہے اور دینہ کو اپنا وطن قرار دیتے ہوئے اس حسرت کا اظہار بھی کرتا ہے کہ اب وہ اس کا ملک نہیں رہا ۔ گلزار اپنی ایک نظم "اگر ایسا بھی ہو سکتا”میںدینہ کے حوالے سے اپنے خوابوں کا احوال یوں بیان کرتاہے۔
اگر ایسا بھی ہو سکتا
تمہاری نیند میں سب خواب اپنے منتقل کر کے
تمھیں وہ سب دکھا سکتا، جو میں خوابوں میں اکثر دیکھا کرتا ہوں!
یہ ہو سکتا اگر ممکن
تمہیں معلوم ہو جاتا
تمہیں میں لے گیا تھا، سرحدوں کے پاردینہ میں
تمہیں وہ گھر دکھایا تھا—— جہاں پیدا ہوا تھا میں
جہاں چھت پر لگا سریوں کا جنگلا ،دھوپ سے دن بھر
میرے آنگن میں شطرنجی بناتا تھا، مٹاتا تھا
دکھائی تھی تمہیں وہ کھیتیاں سرسوں کی دینے میں ،کہ جس کے
پیلے پیلے پھول تم کو خواب میں کچے کھلائے تھے
وہی ایک رستہ تھا ” ٹا لہیوں” کا جس پہ میلوں تک پڑا کرتے تھے
جھولے سوندھے ساون کے
اُسی کی سوندھی خوشبو سے، مہک اٹھتی ہیںآنکھیں
جب کبھی اس خواب سے گزروں
تمہیں رہتاس کا چلتا کنواں، بھی تو دکھایا تھا
قلعے میں بند رہتا تھا جو دن بھر، رات کو گاؤں میں آ جاتا تھا، کہتے ہیں
تمہیں کالا سے کالووال تک لے اُڑاہوں میں
تمہیں دریائے جہلم پر عجب منظر دکھائے تھے
جہاں تربوز پر لیٹے ہوئے تیراک لڑکے بہتے رہتے تھے
جہاں تگڑے سے اک سردار کی پگڑی پکڑ کر میں
نہاتا، ڈبکیاں لیتا،مگر جب غوطہ آ جاتا تو میری نیند کھل جاتی
مگریہ صرف خوابوں میں ہی ممکن ہے
وہاں جانے میں اب دشواریاں ہیں کچھ سیاست کی
وطن اب بھی وہی ہے، پر نہیں ہے ملک اب میرا
وہاں جانا ہو اب تو دو دو سرکاروں کے دَسیوں دفتروں سے
شکل پر، لگوا کر مہریں، خواب سچ ثابت کرنے پڑتے ہیں!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے