کالم

گوجرخان ٹی ہاوس

لاہور ٹی ہاو¿س کا نام سن رکھا تھا، تاہم گوجر خان کے سرسید ‘پیارے دوست حکیم عبدالروف کیانی کی کوششوں سے میرے گاو¿ں بھائی خان کے قریب جی ٹی روڈ پر قائم گوجرخان ٹی ہاو¿س کو دیکھ کر ساری حسرتیں پوری ہوگئیں ۔ یہ سچ ہے زندگی میںجو مثبت سوچ رکھتے ہیں وہی خدمت انسانیہ نفع نقصان کے بغیر کرتے دکھائی دیتے ہیں ایسے لوگوں کی تعداد گو کہ کم ہے ۔ خطہ پوٹھوار میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس پر ہم سب کو فخر ہے۔یہ صاحب معالج ، ماہر تعلیم ، بزنس مین، مصنف ہیں ۔ جامعات کے طلبا ان کی کتابوں پر ریسرچ ورک کررہے ہیں۔ پڑوسی ملک کے دانشور ان کی کتابوں کے ترجمے چھاپ چکے ہیں۔ حکیم کی بات کریں تو اللہ کریم نے ان کے ہاتھ میں شفا دے رکھی ہے ۔بہت سے مریضوں کا مفت علاج بھی کرتے ہیں۔ تعلیم کا سلسلہ دی رورل سکول سے شروع کیا، اب اس کی برانچیں بھی کھل چکی ہیں۔حال ہی میں معروف پبلیکیشن (فکشن ہاوس) کی ایک شاخ گوجرخان میں قائم کی بطور چیئرمین فکشن ہاﺅس کا افتتاح بھی ہو چکا ہے ۔ حکیم عبدالروف کیانی اسی جگہ میں گوجر خان ٹی ہاو¿س کی بنیاد رکھی اور اس کا بھی افتتاح ہو چکا ہے ۔ ٹی ہاو¿س اور فکشن پبلیکیشن کے افتتاح کے موقع پر اپنے حلقہ احباب کو ان خوشیوں میں مدعو کر رکھا تھا۔ مہمانوں کے بڑے بڑے پوسٹر جی ٹی روڈ پر لگا رکھے تھے۔ گیسٹ آمد پر ان کا استقبال بینڈ باجے کےساتھ کیا۔ اس روز فکشن ہاو¿س کی طباعت کردہ کتابوں کو خوبصورتی سے سجا رکھا تھا۔ہر کتاب پر ڈسکاونٹ دے رکھا تھا۔ دوپہر دو بجے تک مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا ۔اسٹیج سیکٹری مبین مرزا تھے۔ انہوں نے مشہور نعت گو مرحوم مظفر وارثی کی نعت انہی کے انداز میں پڑھ کر سماں باندھ دیا، پھر کیانی صاحب خود بھی ہر مہمانوں کو عزت کےساتھ دعوت خطاب کےلنے بلاتے رہے۔ اس موقع پر سب نے خوبصورت انداز میں رو¿ف کیانی کوخراج تحسین پیش کیا، اس روز کیانی صاحب میزبان کم دولہا زیادہ نظر آئے۔ کیانی صاحب نے بتایا کہ آج میری شادی کی سالگرہ بھی ہے۔ یہ سن کر سب نے یک زبان ہوکر انہیں مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ کیانی صاحب نے بتایا کہ مجھے لکھنے کا شوق سکول کے زمانہ سے تھا۔ سب سے زیادہ شہرت مجھے ناول لکھنے سے ملی۔ کہا میں پراپرٹی کے بزنس سے بھی منسلک ہوں۔بطور حکیم غریبوں کا علاج مفت کرتا ہوں۔ گوجرخان ٹی ہاو¿س میں اپنے ساتھی لکھاریوں کیلئے رہائش کےساتھ کھانے پینے کا بھی انتظام ہے۔ اگر آپ نے کتاب لکھ رکھی ہے ، کالم لکھ رکھیں ہیں تو ہم اسے کاغذ اور پرنٹنگ ریٹ پر بغیر نفع کے چھاپیں گے ، اس کی تشہیر بھی ہمارا ادارہ فکشن ہی کرینگے۔ اہم موضوعات کو جانچ پرکھ کر مفت چھاپا جائے گا۔ خوبصورت تقریب میں فکشن پبلیکیشن کے سربراہ ظہور احمد خان بھی لاہور سے تشریف لائے تھے وہ نہایت سادہ عاجز شخصیت کے مالک ہیں۔ تقریب میں تمام مہمانوں کیلئے کھانے کا پر تکلف انتظام کر رکھا تھا۔ اس روز ایوان صدر میں بھی ایک تقریب تھی ہم وہاں بھی بطور کنسلٹنٹ مدعو تھے لیکن کیانی صاحب کی محبت ہمیں اس پروگرام میں کھینچ لائی۔ انکے لگائے گئے پوسٹروں نے دور دور تک دھوم مچا رکھی تھی جس کی خوشبو گوجرخان بارکے وکلا تک بھی پہنچی ۔گوجرخان میں داخل ہونے پر راجہ جواد ارسلان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے اپنے ساتھی وکلا کےساتھ گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔ وہ ہمارے ساتھ تقریب میں شامل رہے ۔ گاو¿ں بھائی خان کے نوجوانوں نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔ یہ ایونٹ ہر لحاظ سے منفرد تھا۔ تقریب کو منفرد بنانے میں میزبان اور مہمانوں نے ملکر اہم رول ادا کیا۔اس موقع پر سب نے محبتوں کے پھول نچھاور کئے۔ مہمانوں کے اس خوبصورت گلدستے میں ظہور احمد خان،جبار مرزا ، حسین مجروع، برگیڈئیر صولت رضا، مجاہدرانا، سید ماجد شاہ، نسیم سحر، مظہر شہزاد، سرمد روش،کرنل طلعت شبیر ، کرنل خالد مصطفی ، تسلیم اکرام، نرگس جہانزیب ،عامرہاشمی،ادریس آزاد، جلیل عالی، شعیب خالق،رفعت وحید، عامر ہاشمی،فاطمہ عثمان، نرگس جاوید ، مظہر عباس رضوی مبین مرزا اور حکیم عبدالروئف کیانی پر مشتمل تھا۔ یہ علمی ادبی کام جو کیانی صاحب نے کر دکھایا یہ کام دراصل حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔یہ کہنا کہ اس سائنسی دور میں اخبارات اور کتب پڑھنے کا رجحان نہیں رہا ۔ ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے اتنا ضرور کہتے ہیں کہ اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دوسری طرف جب سے ججوں نے خط لکھنے اور ان کے جوابات آنے شروع ہوئے ہیں اس سے اب امید ہو چلی ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ خطوط کتابی شکل میں پڑھیں جائیں گے۔ موجودہ دور میں یہ سچ ہے کہ خطوط لکھنے میں ججز بازی لے گئے ۔ اب مقابلے میں یہ خطوط ججز کو بھی لکھے جا چکے ہیں۔یہ بھی پتہ لگایا جا رہا ہے ججز کو خطوط لکھنے والے کون تھے؟۔خط کے ساتھ زہر آلود پوڈر کی وجہ سے خط لکھنے پر سزا دی جائے گی۔
قتل کر دو نگاہوں سے ، نہ ہو تکلیف دونوں کو
تجھے خنجر اٹھانے کی مجھے گردن جھکانے کی
خطوط لکھنے والیاں اس شعر پر عمل کرتی دکھائی دیتی ہیں جو چاہتی ہیں موت واقع ہو مگر بغیر خون نکلے کے۔خطوط لکھے جانے سے امید ہو چلی ہے کہ ادب میں ایک بار پھر پڑھنے کے رحجان میں جان تو پڑی ہے۔ آج نہیں تو کل سے خطوط پھر سے لکھے جائیں گے اور یہ تمام خطوط کتابی شکل میں چھپیں گے۔یہ بھی خوشی ہے کہ جب تک کیانی صاحب جیسے علم ودانش کے حامل روشن خیال لوگ موجود ہیں یہ ادبی چراغ یوں ہی روشن رہیں گے۔ اس میں ہم سب کو مل کر ان کا ساتھ دینا ہو گا انکی سوچ کو اپنانا ہو گا،ان کی اس کاوش میں ان کا ساتھ دینا ہو گا۔ تقریب کے بعد میں نے بھی اپنے تیس سالہ کالموں میں سے کچھ کالم فکشن ہاس میں کتابی شکل کیلئے پہنچا دیئے ہیں ۔امید ہے یہ کتابی شکل میں جلد منظر عام پر آئیں گے۔ ہر دور میں لکھاریوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ نہ جانے کون سی لکھی گئی بات کس کے دل میں اتر جائے اور وہ معاشرے کے مفید شہری بن جائیں۔دعا ہے ہم سب یوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں، ایک دوسرے کے کام آتے رہیں ملتے رہیں لکھتے رہیں۔
” گوجرخان ٹی ہاو¿س زندہ باد”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے