کہتے ہیں قدرت کے سامنے انسان بے بس ہوتا ہے۔ لیکن جناب! سوال یہ ہے کہ اگر ہم صرف ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، پل باندھنے کے بجائے پلندے باندھتے رہیں، اور منصوبہ بندی کے نام پر کاغذ کالے کرتے رہیں تو پھر یہ تباہی قدرت کی ہے یا ہماری نالائقی کی؟جون کے آخر سے لے کر آج تک پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔800سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے، 1176 زخمی، دو سو سے زائد لاپتہ اور پنجاب کے 20 لاکھ باسی براہِ راست متاثر ،یہ محض اعداد نہیں، یہ لاشیں ہیں،یہ روتے بچے ہیں،یہ کھیتوں میں ڈوبی روٹی ہے۔ خیبر پختونخوا کے سوات، بنیر شانگلا، بٹگرام، لوئر دیر اور ایبٹ آباد کے پہاڑی سلسلے سیلاب کی زد میں ہیں۔ بنیر کے پیربابا اور ڈھگار لمحوں میں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ گلگت بلتستان کے ہنزہ، غذر اور اسکردو میں گلیشیائی جھیلیں پھٹیں، لینڈ سلائیڈنگ نے راستے توڑ دیے، اور پورے کے پورے گاؤں پہاڑ کے ساتھ بہہ گئے۔ آزاد جموں و کشمیر کے مظفرآباد اور وادی نیلم میں ندی نالے بستیاں بہا کر لے گئے اور سینکڑوں خاندان کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورہیں۔پنجاب میں مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان کی بستیاں پانی میں غرق ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات اور نارووال کے کسان اپنی کھڑی فصلوں کو ڈوبتے دیکھتے رہے۔ نارووال میں واقع تاریخی کرتارپور صاحب گردوارہ بھی پانی کے آگے بے بس ہو گیا۔ جنوبی پنجاب کے ملتان کے نچلے علاقے اور سندھ کے کشمور، جیکب آباد اور قمبر شہداد کوٹ کے دیہات اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔ یہ سب وہ مقامات ہیں جہاں لوگ آسمان تلے دن گزارتے ہیں اور راتیں مچھروں، بھوک اور خوف کے سائے میں کاٹتے ہیں۔ اب آئیے حکمرانوں کی طرف۔ ارے جناب! وہاں تو عجیب تماشا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں فرمایا گیا: متاثرین کو معاوضہ دیا جائے گا، امداد پہنچائی جا رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ متاثرین آج بھی مٹی کے ٹیلوں پر بیٹھے ہیں اور حکومتی امداد کاغذی بیان سے آگے نہیں بڑھتی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں امداد کے ٹرک شہر کی گلیوں میں غائب ہو جاتے ہیں، کہیں بوریوں سے آٹا نکلتا ہی نہیں، کہیں چادریں بازار میں فروخت ہوتی ہیں۔ عوام پوچھتے ہیں: یہ کون سا ریلیف ہے؟اوپر سے ہمارے وزرا کی لطیفہ گوئی بھی کمال ہے۔ خواجہ آصف صاحب نے ارشاد فرمایا کہ سیلابی پانی کو کنٹینر میں بھر کر گھروں تک پہنچانا چاہیے،یہ پانی تو ایک نعمت ہے۔سبحان اللہ! نہ جانے یہ قوم خوش ہو یا روئے کہ ہمارے حکمران تباہی کو بھی مذاق میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاید اگلے مرحلے پر یہ اعلان بھی ہو جائے کہ سیلابی پانی سے بجلی پیدا کریں اور عوام کو مفت روشنی دیں”یہ سب کچھ دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ 2010 کا سیلاب کیا تھا؟ 2022 کا سیلاب کیا تھا؟ کیا اس وقت بھی یہی وعدے نہیں ہوئے تھے کہ ڈیم بنیں گے، نالے صاف ہوں گے، ادارے مضبوط ہوں گے؟ لیکن آج 2025 ہے اور ہم اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں پندرہ سال پہلے تھے بلکہ شاید اس سے بھی پیچھے۔یہ المیہ صرف پانی کا نہیں، یہ حکومتی ترجیحات کا نوحہ ہے۔ ہم اربوں روپے میٹرو بسوں اور بلند و بالا منصوبوں پر لگا دیتے ہیں مگر ڈرینیج سسٹم کے لیے بجٹ نہیں نکلتا۔ ہم جلسوں میں نعرے لگاتے ہیں مگر مظفر گڑھ، راجن پور اور نیلم ویلی کے خیمے خالی رہتے ہیں۔ ہم عالمی کانفرنسوں میں موسمیاتی تبدیلی پر تقریریں کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں ایک چھوٹا سا ڈیم بھی نہ بنا سکے۔
آنے والے دنوں میں مزید تشویش ہے کیونکہ ماہرین موسمیات خبردار کر رہے ہیں کہ یہ تو محض آغاز ہے۔ مون سون کے اگلے اسپیل میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں مزید سیلابی ریلوں کا خدشہ ہے۔ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کا خطرہ برقرار ہے اور پنجاب کے نشیبی علاقے، خاص طور پر چناب، ستلج اور راوی کے کنارے مزید متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر اگلے چند ہفتوں میں بارشیں شدت پکڑ گئیں تو لاکھوں مزید افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑے گا۔ گویا آنے والا وقت زیادہ سنگین ہو سکتا ہے اور اگر ابھی سے اقدامات نہ کیے گئے تو تباہی کا یہ سلسلہ آنے والے برسوں میں معمول بن جائے گا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو آنے والے برسوں میں پاکستان کے نقشے پر شاید بستیاں کم اور جھیلیں زیادہ نظر آئیں۔ وقت اب بھی ہے۔ شفاف ریلیف، فوری معاوضہ، طویل المدتی منصوبہ بندی، درختوں کی بحالی اور ڈیمز کی تعمیر، یہ سب ہماری بقا کی شرط ہیں۔ ورنہ تاریخ یہی لکھے گی کہ یہ قوم پانی میں نہیں ڈوبی، اپنے حکمرانوں کی نااہلی میں ڈوبی۔قومیں حادثوں سے نہیں مرتیں، بے حسی اور نااہلی سے مر جاتی ہیں۔ آج اگر مظفرآباد، نیلم، ہنزہ، مظفر گڑھ اور راجن پور کے باسی بے یار و مددگار ہیں تو یہ محض بارش یا پہاڑوں کے بہاؤ کا نتیجہ نہیں، یہ دہائیوں کی غفلت کا حساب ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، ڈیم نہ بنائے، نالوں کو نہ سنبھالا اور اداروں کو سیاست کی نذر کرتے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ تاریخ ہمیں یہی لکھ کر رسوا کرے گی کہ یہ وہ قوم تھی جو اپنی بسوں اور سڑکوں پر اربوں لٹاتی رہی لیکن اپنے عوام کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ گئی۔
کالم
گونجتے سوال ،سیلاب کی ویرانی: دعوے، وعدے اور حقیقت
- by web desk
- ستمبر 4, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 21 Views
- 14 گھنٹے ago